Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: "It is made lawful for you to have sexual relations with your wives on the night of the As-Saum.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حلال کر دیا گیا ہے تمہارے لیے رمضان کا راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے ایسا کرتے تھے۔ سو معاف کردیا تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب صحبت کرو ان سے اور ڈھونڈو جو لکھ دیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں ( اولاد سے )۔
1915.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت محمد ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی روزے سے ہوتا اور افطار کے وقت وہ افطار کرنے سے پہلے سوجاتا تو پھر باقی رات میں کچھ نہ کھا سکتا اور نہ دوسرے دن، یہاں تک کہ شام ہوجاتی۔ ایک دن قیس بن صرمہ انصاری ؓ روزے سے تھے افطار کا وقت آیا تو اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟انھوں نےکہا: نہیں لیکن میں کہیں جاتی ہوں اور تمہارے لیے کھانے کابندوبست کرتی ہوں۔ وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے تھے۔ ان پر نیند غالب آگئی اور سو گئے۔ پھر جب ان کی اہلیہ آئیں تو انھیں سویا ہوا دیکھ کر کہنے لگیں: ہائے تمہاری محرومی!وہ دوسرے دن دوپہر کے وقت بھوک کے مارے بے ہوش ہوگئے۔ یہ واقعہ نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: أُحِلَّ لَكُمْ ’’تمہارے لیے روزوں کی رات اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔‘‘ اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بہت خوش ہوئے۔ یہ بھی آیت نازل ہوئی: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا ’’کھاؤ پیوتا آنکہ شب کی سیاہ دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک آیت کریمہ کو عنوان قرار دیا، پھر حدیث نبوی کو اس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے۔ (2) دراصل امام بخاری روزے کی ابتدائی حالت اور سحری کی مشروعیت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پیش کردہ حدیث میں ہر دو مقاصد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ آغاز کار میں مغرب کے بعد جب نیند آ جاتی تو کھانا پینا حرام ہو جاتا، پھر اگلے دن شام تک بھوکا پیاسا رہنا پڑتا، اہل کتاب کی موافقت میں سحری بھی نہ کی جاتی تھی، چنانچہ اس آیت کریمہ میں مغرب کے بعد کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے کی اجازت دی گئی اور سحری کی مشروعیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل سحری کا کھانا ہے، یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ سحری نہیں کرتے۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2550(1096)) (4) حضرت قیس بن صرمہ ؓ کے واقعہ اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ جب رمضان کی راتوں میں جماع کی اجازت دی گئی تو کھانا پینا بطریق اولیٰ حلال ہو گا۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی حلت کو ثابت کیا گیا۔ (فتح الباري:169/4) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1861
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1915
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1915
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1915
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حلال کر دیا گیا ہے تمہارے لیے رمضان کا راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے ایسا کرتے تھے۔ سو معاف کردیا تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب صحبت کرو ان سے اور ڈھونڈو جو لکھ دیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں ( اولاد سے )۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت محمد ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی روزے سے ہوتا اور افطار کے وقت وہ افطار کرنے سے پہلے سوجاتا تو پھر باقی رات میں کچھ نہ کھا سکتا اور نہ دوسرے دن، یہاں تک کہ شام ہوجاتی۔ ایک دن قیس بن صرمہ انصاری ؓ روزے سے تھے افطار کا وقت آیا تو اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟انھوں نےکہا: نہیں لیکن میں کہیں جاتی ہوں اور تمہارے لیے کھانے کابندوبست کرتی ہوں۔ وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے تھے۔ ان پر نیند غالب آگئی اور سو گئے۔ پھر جب ان کی اہلیہ آئیں تو انھیں سویا ہوا دیکھ کر کہنے لگیں: ہائے تمہاری محرومی!وہ دوسرے دن دوپہر کے وقت بھوک کے مارے بے ہوش ہوگئے۔ یہ واقعہ نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: أُحِلَّ لَكُمْ’’تمہارے لیے روزوں کی رات اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔‘‘ اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بہت خوش ہوئے۔ یہ بھی آیت نازل ہوئی: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا ’’کھاؤ پیوتا آنکہ شب کی سیاہ دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک آیت کریمہ کو عنوان قرار دیا، پھر حدیث نبوی کو اس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے۔ (2) دراصل امام بخاری روزے کی ابتدائی حالت اور سحری کی مشروعیت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پیش کردہ حدیث میں ہر دو مقاصد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ آغاز کار میں مغرب کے بعد جب نیند آ جاتی تو کھانا پینا حرام ہو جاتا، پھر اگلے دن شام تک بھوکا پیاسا رہنا پڑتا، اہل کتاب کی موافقت میں سحری بھی نہ کی جاتی تھی، چنانچہ اس آیت کریمہ میں مغرب کے بعد کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے کی اجازت دی گئی اور سحری کی مشروعیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل سحری کا کھانا ہے، یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ سحری نہیں کرتے۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2550(1096)) (4) حضرت قیس بن صرمہ ؓ کے واقعہ اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ جب رمضان کی راتوں میں جماع کی اجازت دی گئی تو کھانا پینا بطریق اولیٰ حلال ہو گا۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی حلت کو ثابت کیا گیا۔ (فتح الباري:169/4) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براءؓ نے بیان کیا کہ ( شروع اسلام میں ) حضرت محمد ﷺ کے صحابہ ؓ جب روزہ سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزہ دار اگر افطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر اس رات میں بھی اور آنے والے دن میں بھی انہیں کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی تاآنکہ پھر شام ہو جاتی، پھر ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری ؓ بھی روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا ( اس وقت کچھ ) نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں ( سوتے ہوئے ) دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بے ہوش ہو گئے جب اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ” حلال کر دیا گیا تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا “ اس پر صحابہ ؓ بہت خوش ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی ” کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہوجائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری ( صبح صادق ) سیاہ دھاری ( صبح کاذب ) سے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
نسائی کی روایت میں یہ مضمون یوں ہے کہ روزہ دار جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جائے، رات بھر کچھ نہ کھاپی سکتا تھا یہاں تک کہ دوسری شام ہو جاتی اور ابوالشیخ کی روایت میں یوں ہے کہ مسلمان افطار کے وقت کھاتے پیتے، عورتوں سے صبحت کرتے، جب تک سوتے نہیں۔ سونے کے بعد پھر دوسرا دن ختم ہونے تک کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ ابتداءمیں تھا بعد میں اللہ پاک نے روزہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور جملہ مشکلات کو آسان فرمادیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara: It was the custom among the companions of Muhammad that if any of them was fasting and the food was presented (for breaking his fast), but he slept before eating, he would not eat that night and the following day till sunset. Qais bin Sirma-al-Ansari was fasting and came to his wife at the time of Iftar (breaking one's fast) and asked her whether she had anything to eat. She replied, "No, but I would go and bring some for you." He used to do hard work during the day, so he was overwhelmed by sleep and slept. When his wife came and saw him, she said, "Disappointment for you." When it was midday on the following day, he fainted and the Prophet (ﷺ) was informed about the whole matter and the following verses were revealed: "You are permitted To go to your wives (for sexual relation) At the night of fasting." So, they were overjoyed by it. And then Allah also revealed: "And eat and drink Until the white thread Of dawn appears to you Distinct from the black thread (of the night)." (2.187)