باب : ( سورۃ بقرہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ سحری کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ کھل جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری ( صبح صادق ) سیاہ دھاری یعنی صبح کاذب سے پھر پورے کرو اپنے روزے سورج چھپنے تک
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And eat and drink until the white thread of dawn appears to you distinct from the black.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اس سلسلے میں ) براءؓ کی ایک روایت بھی نبی کریم ﷺسے مروی ہے
1916.
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ﴾ ’’(کھاؤ اور پیو) یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگا، سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔ ‘‘ تو میں نے ایک سیاہ اور ایک سفید رسی لی، پھر ان دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا اور رات کو اٹھ کر ان کو دیکھتا رہا۔ لیکن مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ چنانچہ میں صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سیاہ دھاگا شب کی سیاہی اور سفید دھاگا صبح کی سفیدی ہے۔ ‘‘
تشریح:
(1) مسلمانوں کے ہاں ابتدائی طور پر روزے کے متعلق یہ دستور تھا کہ وہ اہل کتاب کی طرح شام کو سونے کے بعد روزہ شروع کر دیتے اور آئندہ شام تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے، چنانچہ سنن نسائی میں ہے کہ روزہ دار جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تو رات بھر کچھ نہیں کھا سکتا تھا۔ اس آیت کریمہ اور پیش کردہ روایت میں اس ابتدائی دستور کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2170) (2) حضرت عدی بن حاتم ؓ نے سفید دھاگے اور سیاہ دھاگے کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی وضاحت کے بعد انہیں اصل حقیقت معلوم ہوئی۔ (3) اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس آیت کے نزول کے وقت حاضر تھے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ رمضان کی فرضیت دو ہجری میں ہوئی اور حضرت عدی بن حاتم نو یا دس ہجری کو مسلمان ہوئے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں کچھ عبارت مخذوف ہے، یعنی اس آیت کے نزول کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا اور شریعت کے احکام سیکھے، اس وقت میں نے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھے۔ اس کی تائید امام احمد بن حنبل کی ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے فرمایا: ’’ایسے نماز پڑھو، اس طرح روزہ رکھو، جب سورج غائب ہو جائے تو کھاؤ پیو، پھر سحری کے متعلق مسائل بیان کیے کہ کھاؤ پیو حتی کہ سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا نمایاں ہو جائے۔‘‘ (مسندأحمد:377/4، وفتح الباري:170/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1862
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1916
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1916
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1916
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس حدیث کو قبل ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (دیکھیے حدیث: 1915)
( اس سلسلے میں ) براءؓ کی ایک روایت بھی نبی کریم ﷺسے مروی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ﴾’’(کھاؤ اور پیو) یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگا، سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔ ‘‘ تو میں نے ایک سیاہ اور ایک سفید رسی لی، پھر ان دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا اور رات کو اٹھ کر ان کو دیکھتا رہا۔ لیکن مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ چنانچہ میں صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سیاہ دھاگا شب کی سیاہی اور سفید دھاگا صبح کی سفیدی ہے۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مسلمانوں کے ہاں ابتدائی طور پر روزے کے متعلق یہ دستور تھا کہ وہ اہل کتاب کی طرح شام کو سونے کے بعد روزہ شروع کر دیتے اور آئندہ شام تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے، چنانچہ سنن نسائی میں ہے کہ روزہ دار جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تو رات بھر کچھ نہیں کھا سکتا تھا۔ اس آیت کریمہ اور پیش کردہ روایت میں اس ابتدائی دستور کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2170) (2) حضرت عدی بن حاتم ؓ نے سفید دھاگے اور سیاہ دھاگے کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی وضاحت کے بعد انہیں اصل حقیقت معلوم ہوئی۔ (3) اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس آیت کے نزول کے وقت حاضر تھے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ رمضان کی فرضیت دو ہجری میں ہوئی اور حضرت عدی بن حاتم نو یا دس ہجری کو مسلمان ہوئے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں کچھ عبارت مخذوف ہے، یعنی اس آیت کے نزول کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا اور شریعت کے احکام سیکھے، اس وقت میں نے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھے۔ اس کی تائید امام احمد بن حنبل کی ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے فرمایا: ’’ایسے نماز پڑھو، اس طرح روزہ رکھو، جب سورج غائب ہو جائے تو کھاؤ پیو، پھر سحری کے متعلق مسائل بیان کیے کہ کھاؤ پیو حتی کہ سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا نمایاں ہو جائے۔‘‘ (مسندأحمد:377/4، وفتح الباري:170/4)
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت براء بن عازب ؓ نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حصین بن عبدالرحمن نے خبر دی، اور ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔‘‘ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی ( صبح کاذب ) اور دن کی سفیدی ( صبح صادق ) مراد ہے۔
حدیث حاشیہ:
عدی بن حاتم ؓ کو آپ ﷺ کے بتلانے پر حقیت سمجھ میں آئی کہ یہاں صبح کاذب اورصبح صادق مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim: When the above verses were revealed: 'Until the white thread appears to you, distinct from the black thread,' I took two (hair) strings, one black and the other white, and kept them under my pillow and went on looking at them throughout the night but could not make anything out of it. So, the next morning I went to Allah's Apostle (ﷺ) and told him the whole story. He explained to me, "That verse means the darkness of the night and the whiteness of the dawn."