باب : روزہ دار کے لیے تر یا خشک مسواک استعمال کرنی درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Siwak for the person observing Saum (fast))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عامر بن ربیعہ ؓسے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺکو روزہ کی حالت میں بے شمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد ؓ کی بھی نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا کہ ( مسواک ) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب کی رضا کا سبب ہے اور عطاءاور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔
1934.
حضرت حمران سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھر کلی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا: ’’جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) حدیث کے معنی ہیں کہ جس شخص نے کامل وضو کیا جو اس کی تمام سنتوں پر مشتمل ہو، ان میں مسواک بھی شامل ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسواک کے خشک یا تر ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ مسواک کرنے میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی تفریق کو روا نہیں رکھا گیا، اس لیے روزہ دار مسواک کر سکتا ہے۔ مسواک تر ہو یا خشک، روزہ فرض ہو یا نفل، دن کے آغاز میں کی جائے یا اس کے آخری حصے میں اسے استعمال کیا جائے، سب جائز ہے۔ قبل ازیں امام ابن سیرین نے مسواک کرنے کو وضو پر قیاس کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان سے غرض کیا گیا کہ تازہ مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔ امام بخاری نے روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کا جواز ثابت کرنے کے لیے حدیث عثمان کو بیان کیا ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ اس وضو میں روزہ دار اور افطار کرنے والے کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ دراصل امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو روزے دار کے لیے تازہ مسواک کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري:202/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1877
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1934
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1934
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1934
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی روایت امام ترمذی نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (جامع الترمذی،الصوم،حدیث:725) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام نسائی نے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائی،الطھارۃ،حدیث:7) حضرت جابر کی روایت کو ابو نعیم نے کتاب السواک میں متصل سند سے ذکر کیا ہے اور زید بن خالد کی روایت کو اصحاب السنن اور امام احمد نے بیان کیا ہے۔ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ تو مسواک اپنے کان پر رکھتے تھے جیسا کہ کاتب حضرات اپنا قلم رکھتے ہیں، جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے۔ ان روایات میں روزے دار اور غیر روزے دار کی کوئی تخصیص نہیں، اس لیے روزے دار کے لیے تازہ اور خشک مسواک کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو امام نسائی نے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائی،الطھارۃ،حدیث:5) حضرت عطاء کے اثر کو سعید بن منصور نے اور حضرت قتادہ کے اثر کو عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری:4/203) علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اگر منہ میں تھوک جمع کر کے نگل لیا تو اس سے روزہ فاسد نہ ہو گا، اگر کسی دوسرے کا تھوک نگل لیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا مگر اس پر کفار واجب نہیں اور اگر اپنے محبوب کا تھوک نگل لیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا اور اس پر کفارہ بھی واجب ہے کیونکہ وہ اسے مکروہ خیال نہیں کرتا بلکہ اس سے لذت اور سرور حاصل کرتا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/97)
اور عامر بن ربیعہ ؓسے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺکو روزہ کی حالت میں بے شمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد ؓ کی بھی نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا کہ ( مسواک ) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب کی رضا کا سبب ہے اور عطاءاور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حمران سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھر کلی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا: ’’جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کے معنی ہیں کہ جس شخص نے کامل وضو کیا جو اس کی تمام سنتوں پر مشتمل ہو، ان میں مسواک بھی شامل ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسواک کے خشک یا تر ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ مسواک کرنے میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی تفریق کو روا نہیں رکھا گیا، اس لیے روزہ دار مسواک کر سکتا ہے۔ مسواک تر ہو یا خشک، روزہ فرض ہو یا نفل، دن کے آغاز میں کی جائے یا اس کے آخری حصے میں اسے استعمال کیا جائے، سب جائز ہے۔ قبل ازیں امام ابن سیرین نے مسواک کرنے کو وضو پر قیاس کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان سے غرض کیا گیا کہ تازہ مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔ امام بخاری نے روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کا جواز ثابت کرنے کے لیے حدیث عثمان کو بیان کیا ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ اس وضو میں روزہ دار اور افطار کرنے والے کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ دراصل امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو روزے دار کے لیے تازہ مسواک کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري:202/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت عامر بن ربیعہ ؓ سے منقول ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے بے شمار دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ نبی کریمﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر میں اپنی اُمت کے لیے گراں خیال نہ کرتا تو انھیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ "اسی طرح کی رویت حضرت جابر اور حضرت زید بن خالد ؓ عنہ بھی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓا نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: "مسواک منہ کو صاف رکھنے کا باعث اور رب کو خوش رکھنے کا ذریعہ ہے۔ "حضرت عطاء اور قتادہنے کہا کہ روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتاہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاءبن زید نے، ان سے حمران نے انہوں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو وضو کرتے دیکھا، آپ نے ( پہلے ) اپنے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا تین تین مرتبہ، اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ داہنا پاؤں دھویا، پھر تین مرتبہ بایاں پاؤں دھویا، آخر میں کہا کہ جس طرح میں نے وضو کیا ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے میری طرح وضو کیا پھر دو رکعت نماز ( تحیۃ الوضو ) اس طرح پڑھی کہ اس نے دل میں کسی قسم کے خیالات و وساوس گزرنے نہیں دیئے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Humran: I saw 'Uthman performing ablution; he washed his hands thrice, rinsed his mouth and then washed his nose, by putting water in it and then blowing it out, and washed his face thrice, and then washed his right forearm up to the elbow thrice, and then the left-forearm up to the elbow thrice, then smeared his head with water, washed his right foot thrice, and then his left foot thrice and said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) performing ablution similar to my present ablution, and then he said, 'Whoever performs ablution like my present ablution and then offers two Rakat in which he does not think of worldly things, all his previous sins will be forgiven."