باب : اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Observing Saum (fast) on the day of 'Ashura)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2002.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایاکہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی نبوت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اب جو چاہے اس دن روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔
تشریح:
(1) عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔ محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ان چار مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن کی عزت و توقیر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ادب و احترام والے چار مہینے حسب ذیل ہیں: ٭ ذوالقعدہ ٭ ذوالحجہ ٭ محرم ٭ رجب۔ ماہ محرم کی عزت اس لیے نہیں کہ اس میں سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی ہے بلکہ قرآنی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے یہ مہینہ حرمت والا ہے لیکن بعض لوگ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس کا پہلا عشرہ واہی تباہی کی نذر کر دیتے ہیں اور اس مہینے کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے، حالانکہ اس کی حرمت و عظمت کسی واقعے یا سانحے کی مرہون منت نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ماہ محرم کا۔‘‘ (مسندأحمد:342/2) اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم کے روزے بہت فضیلت والے ہیں، لہذا اس میں کثرت سے روزے رکھے جائیں، البتہ عاشوراء کا روزہ ان میں سب سے زیادہ مؤکد ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آپ نے یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعد ازاں حکم وجوب ختم کر دیا جسے حدیث میں ترک سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم اس کا استحباب برقرار رکھا گیا۔ (2) عاشوراء کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے جیسا کہ آئندہ بخاری کی حدیث میں بیان ہو گا۔ یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2661۔2660(1131)) اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کا اظہار کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔ (حوالہ نہیں لکھا ہوا) ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے اور اس دن کا روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دل میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشوراء کی تعظیم اور اس دن کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے، (فتح الباري:312/4) چنانچہ حدیث عائشہ میں بیان ہوا ہے کہ قریش دور جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بعثت سے قبل اس دن کا روزہ رکھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1943
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2002
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2002
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2002
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے اوائل اسلام میں یہ روزہ فرض تھا، جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو اس کی فرضیت جاتی رہی صرف سنیت باقی رہ گئی۔
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایاکہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی نبوت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اب جو چاہے اس دن روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔ محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ان چار مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن کی عزت و توقیر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ادب و احترام والے چار مہینے حسب ذیل ہیں: ٭ ذوالقعدہ ٭ ذوالحجہ ٭ محرم ٭ رجب۔ ماہ محرم کی عزت اس لیے نہیں کہ اس میں سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی ہے بلکہ قرآنی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے یہ مہینہ حرمت والا ہے لیکن بعض لوگ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس کا پہلا عشرہ واہی تباہی کی نذر کر دیتے ہیں اور اس مہینے کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے، حالانکہ اس کی حرمت و عظمت کسی واقعے یا سانحے کی مرہون منت نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ماہ محرم کا۔‘‘ (مسندأحمد:342/2) اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم کے روزے بہت فضیلت والے ہیں، لہذا اس میں کثرت سے روزے رکھے جائیں، البتہ عاشوراء کا روزہ ان میں سب سے زیادہ مؤکد ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آپ نے یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعد ازاں حکم وجوب ختم کر دیا جسے حدیث میں ترک سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم اس کا استحباب برقرار رکھا گیا۔ (2) عاشوراء کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے جیسا کہ آئندہ بخاری کی حدیث میں بیان ہو گا۔ یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2661۔2660(1131)) اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کا اظہار کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔ (حوالہ نہیں لکھا ہوا) ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے اور اس دن کا روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دل میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشوراء کی تعظیم اور اس دن کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے، (فتح الباري:312/4) چنانچہ حدیث عائشہ میں بیان ہوا ہے کہ قریش دور جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بعثت سے قبل اس دن کا روزہ رکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عاشوراءکے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی رکھتے۔ پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Quraish used to fast on the day of 'Ashura' in the Pre-lslamic period, and Allah's Apostle (ﷺ) too, used to fast on that day. When he came to Medina, he fasted on that day and ordered others to fast, too. Later when the fasting of the month of Ramadan was prescribed, he gave up fasting on the day of 'Ashura' and it became optional for one to fast on it or not.