باب : رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا او ر اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: The I'tikaf in the last ten days of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔تشریح : حافظ فرماتے ہیں الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔ و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔ سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )
2026.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی ہیں۔
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں اضافہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے شاگرد حضرت نافع کو مسجد نبوی میں اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الاعتکاف، حدیث:2781(1171)) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے ’’توبہ کے ستون‘‘ کے پیچھے چارپائی بچھا دی جاتی یا بستر لگا دیا جاتا۔ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1774) (2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسجد میں کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عمل منسوخ بھی نہیں ہوا کیونکہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔ اعتکاف کرنا آپ کی خصوصیت بھی نہیں کیونکہ ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اس پر عمل کیا۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ (فتح الباري:346/4) بہرحال اعتکاف کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ (3) مسجد میں اعتکاف کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے۔ جو حضرات خواتین کے لیے گھر میں اعتکاف کرنے کی گنجائش نکالتے ہیں یہ درست نہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ خواتین بھی مسجد ہی میں اعتکاف کریں بشرطیکہ خاوند یا سرپرست کی اجازت سے ہو اور وہاں چادر، چار دیواری مجروح ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ گھر میں اعتکاف کرنے کو عبادت کے لیے خلوت گزینی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے اعتکاف کا نام دینا محل نظر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1967
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2026
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2026
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2026
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اعتکاف کے لیے صرف ان مساجد کا انتخاب کیا جائے جنہیں کسی نبی یا رسول نے تعمیر کیا ہو، مثلاً: مسجد حرام، مسجد نبوی یا مسجد اقصیٰ وغیرہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اعتکاف کے لیے اس قسم کی شرائط بلا دلیل ہیں۔ اعتکاف کے لیے ہر قسم کی مسجد کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، خواہ اسے نبی نے تعمیر کیا ہو یا غیر نبی نے، بہرحال وہ مسجد ہو، اس میں اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/267) کچھ لوگ گھروں میں اعتکاف کرنے کے قائل ہیں، اس عنوان سے ان کی بھی تردید مقصود ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد میں اعتکاف کرنے کے لیے مذکورہ آیت بطور دلیل پیش کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ اگر مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ اعتکاف صحیح ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا کیونکہ تعلقات زن و شو تو اجماع امت سے اعتکاف کے منافی ہیں، مساجد کے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کے علاوہ اعتکاف صحیح نہیں۔ (فتح الباری:4/335)
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔تشریح : حافظ فرماتے ہیں الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔ و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔ سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں اضافہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے شاگرد حضرت نافع کو مسجد نبوی میں اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الاعتکاف، حدیث:2781(1171)) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے ’’توبہ کے ستون‘‘ کے پیچھے چارپائی بچھا دی جاتی یا بستر لگا دیا جاتا۔ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1774) (2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسجد میں کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عمل منسوخ بھی نہیں ہوا کیونکہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔ اعتکاف کرنا آپ کی خصوصیت بھی نہیں کیونکہ ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اس پر عمل کیا۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ (فتح الباري:346/4) بہرحال اعتکاف کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ (3) مسجد میں اعتکاف کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے۔ جو حضرات خواتین کے لیے گھر میں اعتکاف کرنے کی گنجائش نکالتے ہیں یہ درست نہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ خواتین بھی مسجد ہی میں اعتکاف کریں بشرطیکہ خاوند یا سرپرست کی اجازت سے ہو اور وہاں چادر، چار دیواری مجروح ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ گھر میں اعتکاف کرنے کو عبادت کے لیے خلوت گزینی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے اعتکاف کا نام دینا محل نظر ہے۔
ترجمۃ الباب:
اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہےکیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب تم مساجد میں اعتکاف کرو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ "یہ اللہ کی حدیث ہیں، لہٰذا تم ان کے قریب مت جاؤ۔ اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں اسی طرح بیان فرماتا ہے، تاکہ وہ متقی بنیں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (the wife of the Prophet) The Prophet (ﷺ) used to practice Itikaf in the last ten days of Ramadan till he died and then his wives used to practice Itikaf after him.