باب : عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: The visit of the wife to her husband in I'tikaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2038.
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: ’’(جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔‘‘ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ’’ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ ‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً: معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔ (فتح الباري:355/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1978
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2038
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2038
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2038
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: ’’(جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔‘‘ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ’’ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً: معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔ (فتح الباري:355/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین نے کہ نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی حضرت صفیہ ؓ نے انہیں خبر دی ( دوسری سند ) اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین نے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں ( اعتکاف میں ) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ ؓ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ ﷺ کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو ! ادھر سنو ! یہ صفیہ بنت حیی ؓ ہیں ( جو میری بیوی ہیں ) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا کہ شیطان ( انسان کے جسم میں ) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی بات نہ ڈال دے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔ علامہ ابن حجر ؒ اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔ وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ اشْتِغَالِ الْمُعْتَكِفِ بِالْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ مِنْ تَشْيِيعِ زَائِرِهِ وَالْقِيَامِ مَعَهُ وَالْحَدِيثِ مَعَ غَيْرِهِ وَإِبَاحَةُ خَلْوَةِ الْمُعْتَكِفِ بِالزَّوْجَةِ وَزِيَارَةُ الْمَرْأَةِ لِلْمُعْتَكِفِ وَبَيَانُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَإِرْشَادُهُمْ إِلَى مَا يَدْفَعُ عَنْهُمُ الْإِثْمَ وَفِيهِ التَّحَرُّزُ مِنَ التَّعَرُّضِ لِسُوءِ الظَّنِّ وَالِاحْتِفَاظُ مِنْ كَيَدِ الشَّيْطَان والاعتذار قَالَ بن دَقِيقِ الْعِيدِ وَهَذَا مُتَأَكِّدٌ فِي حَقِّ الْعُلَمَاءِ وَمَنْ يُقْتَدَى بِهِ فَلَا يَجُوزُ لَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا فِعْلًا يُوجِبُ سُوءَ الظَّنِّ بِهِمْ وَإِنْ كَانَ لَهُمْ فِيهِ مَخْلَصٌ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ إِلَى إِبْطَالِ الِانْتِفَاعِ بِعِلْمِهِمْ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُبَيِّنَ لِلْمَحْكُومِ عَلَيْهِ وَجْهَ الْحُكْمِ إِذَا كَانَ خَافِيًا نَفْيًا لِلتُّهْمَةِ وَمِنْ هُنَا يَظْهَرُ خَطَأُ مَنْ يَتَظَاهَرُ بِمَظَاهِرِ السُّوءِ وَيَعْتَذِرُ بِأَنَّهُ يُجَرِّبُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِهِ وَقَدْ عَظُمَ الْبَلَاءُ بِهَذَا الصِّنْفِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَفِيهِ إِضَافَةُ بُيُوتُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِنَّ وَفِيهِ جَوَازُ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ لَيْلًا وَفِيهِ قَوْلُ سُبْحَانَ اللَّهِ عِنْدَ التَّعَجُّب الخ(فتح الباري)مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ ﷺ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔ اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali bin Al-Husain (RA) (from Safiya, the Prophet's wife): The wives of the Prophet (ﷺ) were with him in the mosque (while he was in Itikaf) and then they departed and the Prophet (ﷺ) said to Safiya bint Huyai, "Don't hurry up, for I shall accompany you," (and her dwelling was in the house of Usama). The Prophet (ﷺ) went out and in the meantime two Ansari men met him and they looked at the Prophet (ﷺ) and passed by. The Prophet (ﷺ) said to them, "Come here. She is (my wife) Safiya bint Huyai." They replied, "Subhan Allah, (How dare we think of evil) O Allah's Apostle (ﷺ) ! (we never expect anything bad from you)." The Prophet (ﷺ) replied, "Satan circulates in the human being as blood circulates in the body, and I was afraid lest Satan might insert an evil thought in your minds."