Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: I'tikaf in the month of Shawwal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2041.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے اجازت طلب کی کہ وہ اعتکاف کریں۔ جب آپ نے انھیں اجازت دی تو انھوں نے مسجد میں خیمہ لگالیا۔ حضرت حفصہ ؓ نےسنا تو انھوں نے بھی خیمہ نصب کرلیا۔ حضرت زینب ؓ نے سنا تو انھوں نے ایک اور خیمہ لگالیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اگلے روز گئے تو وہاں پر چارخیمے دیکھے، آپ نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘ تو آپ کو ان کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس پر انھیں کس چیز نے ابھارا ہے؟کیا وہ نیکی چاہتی ہیں؟ان تمام خیموں کو اکھاڑ دو۔ میں انھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘ چنانچہ وہ تمام خیمے ختم کردیے گئے۔ پھر آپ نےرمضان میں اعتکاف نہ کیا حتیٰ کہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا جبکہ مذکورہ حدیث میں شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے: ان میں کوئی تعارض نہیں، آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف ختم کیا۔ (فتح الباري:351/4) لیکن ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے عشرے میں اعتکاف ہو تو وہ تیسرے عشرے میں کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2464) (2) معتکف کو چاہیے کہ وہ 20 رمضان کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات مسجد میں گزارے، اگلے روز نماز فجر سے فراغت کے بعد جائے اعتکاف میں داخل ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث:2025) اور آخری عشرہ بیسویں رمضان کو مغرب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا کر کے جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:791) مذکورہ حدیث بخاری میں بھی ہے: ’’جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1981
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2041
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2041
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2041
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے اجازت طلب کی کہ وہ اعتکاف کریں۔ جب آپ نے انھیں اجازت دی تو انھوں نے مسجد میں خیمہ لگالیا۔ حضرت حفصہ ؓ نےسنا تو انھوں نے بھی خیمہ نصب کرلیا۔ حضرت زینب ؓ نے سنا تو انھوں نے ایک اور خیمہ لگالیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اگلے روز گئے تو وہاں پر چارخیمے دیکھے، آپ نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘ تو آپ کو ان کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس پر انھیں کس چیز نے ابھارا ہے؟کیا وہ نیکی چاہتی ہیں؟ان تمام خیموں کو اکھاڑ دو۔ میں انھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘ چنانچہ وہ تمام خیمے ختم کردیے گئے۔ پھر آپ نےرمضان میں اعتکاف نہ کیا حتیٰ کہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا جبکہ مذکورہ حدیث میں شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے: ان میں کوئی تعارض نہیں، آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف ختم کیا۔ (فتح الباري:351/4) لیکن ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے عشرے میں اعتکاف ہو تو وہ تیسرے عشرے میں کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2464) (2) معتکف کو چاہیے کہ وہ 20 رمضان کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات مسجد میں گزارے، اگلے روز نماز فجر سے فراغت کے بعد جائے اعتکاف میں داخل ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث:2025) اور آخری عشرہ بیسویں رمضان کو مغرب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا کر کے جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:791) مذکورہ حدیث بخاری میں بھی ہے: ’’جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بنت عبدالرحمن نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے۔ آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ جاتے جہاں آپ کو اعتکاف کے لیے بیٹھنا ہوتا۔ راوی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بھی آپ سے اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، اس لیے انہوں نے ( اپنے لیے بھی مسجد میں ) ایک خیمہ لگا لیا۔ حفصہ ؓ ( زوجہ مطہرہ نبی کریم ﷺ ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگالیا۔ زینب ؓ ( زوجہ مطہرہ نبی کریم ﷺ ) نے سنا تو انہوں نےبھی ایک خیمہ لگا لیا۔ صبح کو جب آنحضرت ﷺ نماز پڑھ کر لوٹے تو چار خیموں پر نظر پڑی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ کو حقیقت حال کی اطلاع دی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا انہوں نے ثواب کی نیت سے یہ نہیں کیا، ( بلکہ صرف ایک دوسری کی ریس سے یہ کیا ہے ) انہیں اکھاڑ دو۔ میں انہیں اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ وہ اکھاڑ دیئے گئے اور آپ نے بھی ( اس سال ) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا۔ بلکہ شوال کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amra bint 'Abdur-Rahman from ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to practice Itikaf every year in the month of Ramadan. And after offering the morning prayer, he used to enter the place of his Itikaf. 'Aisha (RA) asked his permission to let her practice Itikaf and he allowed her, and so she pitched a tent in the mosque. When Hafsah (RA) heard of that, she also pitched a tent (for herself), and when Zainab heard of that, she too pitched another tent. When, in the morning, Allah's Apostle (ﷺ) had finished the morning prayer, he saw four tents and asked, "What is this?" He was informed about it. He then said, "What made them do this? Is it righteousness? Remove the tents, for I do not want to see them." So, the tents were removed. The Prophet (ﷺ) did not perform Itikaf that year in the month of Ramadan, but did it in the last ten days of Shawwal.