باب : جب خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں صاف صاف بیا ن کردیں اور ایک دوسرے کی بہتری چاہیں
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: To explain the good and bad points of the transaction)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عداءبن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عداءبن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی سے کسی نے کہا کہ بعض دلال ( اپنے اصطبل کے ) نام ” آری خراسان اور سجستان “ ( خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل ) رکھتے ہیں اور ( دھوکہ دینے کے لیے ) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے ” خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے “ تشریح : قاضی عیاض نے کہا کہ صحیح یوں ہے کہ عداءکے خریدنے کا بیان ہے نبی کریم ﷺسے، جیسے ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ نے اسے وصل کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے یہاں اشتریٰ باع کے معنی میں آیا ہو یا معاملہ کئی بار ہوا ہو۔ غلام کے عیب کا ذکر ہے یعنی وہ کانا، لولا، لنگڑا فریبی نہیں ہے۔ نہ بھاگنے والا بدکا رہے مقصد یہ ہے کہ بیچنے والے کا فرض ہے کہ معاملہ کی چیز کے عیب و صواب سے خریدار کو پورے طو رپر آگاہ کردے۔
2079.
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔
تشریح:
(1)فروخت کرنے والا اور خریدار اگر دونوں سچ بولیں،فروخت کردہ چیز اور قیمت میں کسی قسم کا ابہام یا پوشیدگی نہ رکھیں تو ان کی بیع نفع مند اور ثمر آور ہوگی بصورت دیگر اس کی برکت ختم کردی جائے گی،یعنی حصول برکت کے لیے شرط یہ ہے کہ سچائی اور ہر معاملے کی وضاحت ہو اور برکت ختم اس وقت ہوگی جب جھوٹ اور ابہام پایا جائے گا۔ اگر فروخت کرنے والے یا خریدار میں سے کسی ایک نے صداقت اور اظہار کا معاملہ کیا لیکن دوسرے نے جھوٹ اور کتمان سے کام لیا تو کیا برکت حاصل ہوگی یانہیں؟حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ صداقت اور وضاحت کرنے والے کو اللہ سے اجرو ثواب ملے گا اور جھوٹ بولنے والا قیامت کے دن عتاب وسزا کا حقدار ہوگا۔(2)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہوں کی نحوست دنیا وآخرت کی برکات کو ختم کردیتی ہے۔( فتح الباری:4/394)(3)بیع پختہ ہونے کہ بعد اسے ختم کرنے کے لیے تین اختیارات ہیں:خیار مجلس،خیار شرط اور خیار عیب،ان تینوں کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2018
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2079
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2079
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2079
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
حضرت عذاء بن خالد رضی اللہ عنہ سے متعلق دستاویز ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں متصل سند سے بیان ہوئی ہے۔(جامع الترمذی،البیوع،حدیث:1216)حضرت قتادہ کی تفسیر کو امام ابن مندہ نے بیان کیا ہے۔ابراہیم نخعی کا قول امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:7/791)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام احمد ، امام ابن ماجہ اور امام حاکمنے متصل سند سے روایت کیا ہے۔( سنن ابن ماجہ،التجارات،حدیث:2246)ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی چیز کے متعلق پوری پوری معلومات فراہم کرے،کسی چیز کو چھپا کر نہ رکھے ،خریدار سے کوئی فریب اور دھوکا روا نہ رکھے،اس سے خریدوفروخت کی برکت برقرار رہتی ہے،بصورت دیگر برکت ختم کر دی جاتی ہے۔( فتح الباری:4/393)
اور عداءبن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عداءبن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی سے کسی نے کہا کہ بعض دلال ( اپنے اصطبل کے ) نام ” آری خراسان اور سجستان “ ( خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل ) رکھتے ہیں اور ( دھوکہ دینے کے لیے ) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے ” خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے “ تشریح : قاضی عیاض نے کہا کہ صحیح یوں ہے کہ عداءکے خریدنے کا بیان ہے نبی کریم ﷺسے، جیسے ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ نے اسے وصل کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے یہاں اشتریٰ باع کے معنی میں آیا ہو یا معاملہ کئی بار ہوا ہو۔ غلام کے عیب کا ذکر ہے یعنی وہ کانا، لولا، لنگڑا فریبی نہیں ہے۔ نہ بھاگنے والا بدکا رہے مقصد یہ ہے کہ بیچنے والے کا فرض ہے کہ معاملہ کی چیز کے عیب و صواب سے خریدار کو پورے طو رپر آگاہ کردے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
(1)فروخت کرنے والا اور خریدار اگر دونوں سچ بولیں،فروخت کردہ چیز اور قیمت میں کسی قسم کا ابہام یا پوشیدگی نہ رکھیں تو ان کی بیع نفع مند اور ثمر آور ہوگی بصورت دیگر اس کی برکت ختم کردی جائے گی،یعنی حصول برکت کے لیے شرط یہ ہے کہ سچائی اور ہر معاملے کی وضاحت ہو اور برکت ختم اس وقت ہوگی جب جھوٹ اور ابہام پایا جائے گا۔ اگر فروخت کرنے والے یا خریدار میں سے کسی ایک نے صداقت اور اظہار کا معاملہ کیا لیکن دوسرے نے جھوٹ اور کتمان سے کام لیا تو کیا برکت حاصل ہوگی یانہیں؟حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ صداقت اور وضاحت کرنے والے کو اللہ سے اجرو ثواب ملے گا اور جھوٹ بولنے والا قیامت کے دن عتاب وسزا کا حقدار ہوگا۔(2)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہوں کی نحوست دنیا وآخرت کی برکات کو ختم کردیتی ہے۔( فتح الباری:4/394)(3)بیع پختہ ہونے کہ بعد اسے ختم کرنے کے لیے تین اختیارات ہیں:خیار مجلس،خیار شرط اور خیار عیب،ان تینوں کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عداء بن خالد ؓ سے بیان کیا جاتا ہے، انھوں نے کہا مجھے نبی کریم ﷺ نے یہ لکھ کر دیا؛ "یہ وہ ہے جسے محمد رسول اللہ ﷺ نے عداء بن خالد سے خرید کیا ہے۔ یہ سودا مسلمان کا مسلمان سے ہے۔ اس میں نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ کوئی عیب اور غائلہ ہی ہے۔ "حضرت قتادہ نے کہاکہ غائلہ سے مراد زنا کاری، چوری اور بھاگ جانا ہے۔حضرت ابراہیم نخعی سے کہا گیا کہ بعض دلال خراسان اور سجستان کے اصطبل کا نام لے کر کہتے ہیں کہ یہ جانور کل خراسان سےآیا ہے اور یہ آج سجستان سے آیا ہے تو انھوں نے اس انداز کو سخت ناپسند کیا۔عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دیدہ دانستہ کسی عیب دار چیز کو فروخت کرے مگر اسے اس کے متعلق آگاہ کردینا چاہیے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے صالح ابوخلیل نے، ان سے عبیداللہ بن حارث نے، انہوں نے حکیم بن حزام ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار ( بیع ختم کردینے کا ) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ نے ( مالم یتفرقا کے بجائے ) حتی یتفرقا فرمایا۔ ( آنحضرت ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا ) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب ظاہر ہے کہ سوداگروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کردیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ مل سکے اور اس بارے میں کوئی جھوٹی قسم ہرگز نہ کھائیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدار کو جب تک وہ دکان سے جدا نہ ہو مال واپس کرنے کا اختیار ہے ہاں دکان سے چلے جانے کے بعد یہ اختیار ختم ہے مگر یہ کہ ہر دونے باہمی طور پر ایک مدت کے لیے اس اختیار کو طے کر لیا ہو تو یہ امر دیگر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakim bin Hizam (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The seller and the buyer have the right to keep or return goods as long as they have not parted or till they part; and if both the parties spoke the truth and described the defects and qualities (of the goods), then they would be blessed in their transaction, and if they told lies or hid something, then the blessings of their transaction would be lost." ________