باب : سود کھانے والا اور اس پر گواہ ہونے والا اور سودی معاملات کا لکھنے والا، ان سب کی سزا کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The sin of Riba, its witness and its writer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت میں بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ خرید و فروخت بھی سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلا ل قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ پس جس کو اس کے رب کی نصیحت پہنچی اور وہ ( سود لینے سے ) باز آگیا تو وہ جوکچھ پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن اگر وہ پھر بھی سود لیتا رہا تو یہی لوگ جہنمی ہیں، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ کسی پر آسیب ہو یا شیطان تو وہ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اگر مشکل سے کھڑا بھی ہوتا ہے تو کپکپا کر گرپڑتا ہے۔ یہی حال حشر میں سود خواروں کا ہوگا کہ وہ مخبوط الحواس ہو کر حشر میں عنداللہ حاضر کئے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے سود کو تجارت پر قیاس کرکے اس کو حلال قرار دیا۔ حالانکہ تجارت کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اور سودی معاملات کو حرام، مگر انہوں نے قانون الٰہی کا مقابلہ کیا، گویا چوری کی اور سینہ زوری کی، لہٰذا ان کی سزا یہ ہونی چاہئے۔ کہ وہ میدان محشر میں اس قدر ذلیل ہو کر اٹھیں کہ دیکھنے والے سب ہی ان کو ذلت اور خواری کی تصویر دیکھیں۔
2084.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب سورہ بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے انھیں مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پڑھ کر سنایا، پھر شراب کی تجارت کوحرام کردیا۔
تشریح:
1۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات میں سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2)اگرچہ شراب کی حرمت سورۂ مائدہ میں آیت رہا سے کافی مدت پہلے نازل ہوچکی تھی۔اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجارت کو حرام قرار دیا تھا اور اس کا اعلان بھی کردیا تھا،پھر جب آیت ربا نازل ہوئی تو دوبارہ تاکید اور یاددہانی کے طور پر اس کی حرمت بیان فرمائی۔(3)واضح رہے کہ سورۂ بقرہ کے آخر میں قرض کے تحریر کرنے اور خریدوفروخت کے وقت گواہ بنانے کا زکر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز تجارت ، یعنی سودی معاملات کو لکھنا اور اس کے متعلق گواہی دینا جائز نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث بیان کی ہے۔( فتح الباری:4/397)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2023
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2084
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2084
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2084
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس آیت کریمہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ آیت احکام سود کو بیان کرنے والی ہے۔ممکن ہے کہ آپ نے اس عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"سود کھانے والا،کھلانے والا،گواہی دینے والا اور اسے تحریر میں لانے والا،سب ملعون ہیں اور گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔(صحیح مسلم،البیوع،حدیث:4093(1598))اس وعید کی روشنی میں ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردے،خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ واضح رہے کہ سود اور تجارت میں فرق یہ ہے کہ سود میں ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے،نیز تجارت میں ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے جبکہ سود کی صورت میں سود خور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بہرحال سود کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ ایک کبیرہ گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت میں بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ خرید و فروخت بھی سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلا ل قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ پس جس کو اس کے رب کی نصیحت پہنچی اور وہ ( سود لینے سے ) باز آگیا تو وہ جوکچھ پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن اگر وہ پھر بھی سود لیتا رہا تو یہی لوگ جہنمی ہیں، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ کسی پر آسیب ہو یا شیطان تو وہ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اگر مشکل سے کھڑا بھی ہوتا ہے تو کپکپا کر گرپڑتا ہے۔ یہی حال حشر میں سود خواروں کا ہوگا کہ وہ مخبوط الحواس ہو کر حشر میں عنداللہ حاضر کئے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے سود کو تجارت پر قیاس کرکے اس کو حلال قرار دیا۔ حالانکہ تجارت کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اور سودی معاملات کو حرام، مگر انہوں نے قانون الٰہی کا مقابلہ کیا، گویا چوری کی اور سینہ زوری کی، لہٰذا ان کی سزا یہ ہونی چاہئے۔ کہ وہ میدان محشر میں اس قدر ذلیل ہو کر اٹھیں کہ دیکھنے والے سب ہی ان کو ذلت اور خواری کی تصویر دیکھیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب سورہ بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے انھیں مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پڑھ کر سنایا، پھر شراب کی تجارت کوحرام کردیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات میں سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2)اگرچہ شراب کی حرمت سورۂ مائدہ میں آیت رہا سے کافی مدت پہلے نازل ہوچکی تھی۔اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجارت کو حرام قرار دیا تھا اور اس کا اعلان بھی کردیا تھا،پھر جب آیت ربا نازل ہوئی تو دوبارہ تاکید اور یاددہانی کے طور پر اس کی حرمت بیان فرمائی۔(3)واضح رہے کہ سورۂ بقرہ کے آخر میں قرض کے تحریر کرنے اور خریدوفروخت کے وقت گواہ بنانے کا زکر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز تجارت ، یعنی سودی معاملات کو لکھنا اور اس کے متعلق گواہی دینا جائز نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث بیان کی ہے۔( فتح الباری:4/397)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے(شیطان نے کسی شخص کو چھوکر مخبوط الحواس بنادیا ہو)۔۔۔ آخر آیت تک۔
فائدہ:واضح رہے کہ سود اور تجارت میں فرق یہ ہے کہ سود میں ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے نیز تجارت میں ایک دوسرے سے ہمدردی مروت اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے جبکہ سود کی صورت میں سود خور کو محض اپنے مفاد سےغرض ہوتی ہے بہرحال سود کی حرمت پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے اور یہ ایک کبیرہ گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب ( سورۃ ) بقرہ کی آخری آیتیں الذین یاکلون الربوا الخ نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں صحابہ ؓم کو مسجد میں پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد ان پر شراب کی تجارت حرام کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): When the last Verses of Surat al- Baqara were revealed, the Prophet (ﷺ) recited them in the mosque and proclaimed the trade of alcohol as illegal.