باب : چوپایہ جانوروں اور گھوڑوں، گدھوں کی خریداری کابیان
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The purchase of animals and donkeys)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اگر کوئی سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور بیچنے والا اس پر سوار ہو تو اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہوگا یا نہیں؟ اور ابن عمر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، اسے مجھ سے بیچ دے۔ آپ مراد ایک سرکش اونٹ سے تھی۔
2097.
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت انھوں نے فرمایاکہ میں کسی جنگ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا میرے اونٹ نے چلنے میں سستی کی اور تھک گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "جابر ہو؟"میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "تیرا کیا حال ہے؟"میں نے عرض کیا: میرا اونٹ چلنے میں سستی کرتا ہے اور تھک بھی گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اترے اور اسے اپنی چھڑی سے مار کر فرمایا: " اب سوارہوجاؤ۔ "چنانچہ میں سوار ہو گیا، پھر تو اونٹ ایسا تیز ہوگیا کہ میں اسے رسول اللہ ﷺ (کے برابر ہونے)سے روکتا تھا۔ آپ نے پوچھا : "کیا تم نے شادی کرلی ہے۔ ؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا : "دوشیزہ سے یا شوہر دیدہ سے؟"میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا "نو عمر سے شادی کیوں نہیں کی؟تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے خوش طبعی سے پیش آتی۔ "میں نے عرض کیا: میری بہت سی بہنیں ہیں اس لیے میں نے نکاح کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو انھیں اکٹھارکھے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی خبر گیری بھی کرتی رہے۔ آپ نے فرمایا: "اچھا اب تم جارہے ہو، جب اپنے گھر پہنچو تو عقل و احتیاط کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا۔ "پھر فرمایا: " کیا تم اپنا اونٹ فروخت کرنا چاہتے ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے ایک اوقیہ چاندی کے عوض مجھ سے خرید لیا۔ پھر آپ مجھ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور میں صبح کو وہاں پہنچا۔ ہم لوگ مسجد کی طرف گئے تو میں نے آپ کو مسجد کے دروازے پرپایا۔ آپ نے فرمایا: " کیا تم ابھی آرہے ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ یہیں چھوڑ کر مسجد میں جاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔ "چنانچہ میں نے مسجد کے اندر دو رکعت نماز پڑھی، آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم دیا کہ وہ مجھے ایک اوقیہ چاندی دے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھکاؤ کے ساتھ مجھے ایک اوقیہ چاندی تول دی۔ پھر میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا: " جابر کو میرے پاس بلاؤ۔ " میں نے دل میں سوچا کہ اب آپ میرا اونٹ مجھے واپس کردیں گے اور مجھے یہ بات بہت ہی ناپسندتھی۔ آپ نے فرمایا: " تم اونٹ بھی لے لو اور اس کی قیمت بھی لے جاؤ۔ "
تشریح:
(1)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دومسئلے ثابت کیے ہیں:٭چوپاؤں اور گدھوں وغیرہ کی خریدو فروخت میں کوئی حرج نہیں۔آدمی خواہ کتنا ہی بڑا ہو اور اس کے خدمت کار بھی ہوں،اسے اپنی ضروریات خریدنے میں عار نہیں سمجھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے اور آپ کی سنت پر عمل کرنا ہی باعث خیروبرکت ہے۔٭ایجاب وقبول سے بیع پختہ ہوجاتی ہے۔خریدار کا خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرنا ضروری نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے،اگرچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اونٹ فروخت کرتے وقت یہ شرط طے کرلی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سواری کروں گا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔(2)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کرتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے۔(3)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالک سے ازخود بیع کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے،نیز بزرگوں کو اپنے عقیدت مندوں کے حالات دریافت کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا بھی پتہ چلتا ہے۔والله اعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2036
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2097
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2097
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2097
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دومسائل ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭سواری کے جانوروں کی خریدوفروخت جائز ہے ،خواہ وہ حلال ہوں یا حرام۔اگرچہ پیش کردہ احادیث میں گدھے کا ذکر نہیں ہے،تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے گدھے کو اونٹ پر قیاس کیا ہے کیونکہ دونوں سواری کے جانور ہیں۔٭صحت بیع کے لیے صرف ایجاب وقبول ہی ضروری ہے یا خرید کردہ چیز قبضے میں لینے کے بعد بیع مکمل ہوتی ہے؟اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے پورے جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا،البتہ حدیث جابر سے ان کے رجحان کا پتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک قبضے میں لینا ضروری نہیں ۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سرکش اونٹ خریدنے کا واقعہ امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔( صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2115)اس کی تفصیل اپنے موقع پر بیان ہوگی۔
اگر کوئی سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور بیچنے والا اس پر سوار ہو تو اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہوگا یا نہیں؟ اور ابن عمر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، اسے مجھ سے بیچ دے۔ آپ مراد ایک سرکش اونٹ سے تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت انھوں نے فرمایاکہ میں کسی جنگ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا میرے اونٹ نے چلنے میں سستی کی اور تھک گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "جابر ہو؟"میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "تیرا کیا حال ہے؟"میں نے عرض کیا: میرا اونٹ چلنے میں سستی کرتا ہے اور تھک بھی گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اترے اور اسے اپنی چھڑی سے مار کر فرمایا: " اب سوارہوجاؤ۔ "چنانچہ میں سوار ہو گیا، پھر تو اونٹ ایسا تیز ہوگیا کہ میں اسے رسول اللہ ﷺ (کے برابر ہونے)سے روکتا تھا۔ آپ نے پوچھا : "کیا تم نے شادی کرلی ہے۔ ؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا : "دوشیزہ سے یا شوہر دیدہ سے؟"میں نے عرض کیا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا "نو عمر سے شادی کیوں نہیں کی؟تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے خوش طبعی سے پیش آتی۔ "میں نے عرض کیا: میری بہت سی بہنیں ہیں اس لیے میں نے نکاح کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو انھیں اکٹھارکھے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی خبر گیری بھی کرتی رہے۔ آپ نے فرمایا: "اچھا اب تم جارہے ہو، جب اپنے گھر پہنچو تو عقل و احتیاط کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا۔ "پھر فرمایا: " کیا تم اپنا اونٹ فروخت کرنا چاہتے ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے ایک اوقیہ چاندی کے عوض مجھ سے خرید لیا۔ پھر آپ مجھ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور میں صبح کو وہاں پہنچا۔ ہم لوگ مسجد کی طرف گئے تو میں نے آپ کو مسجد کے دروازے پرپایا۔ آپ نے فرمایا: " کیا تم ابھی آرہے ہو؟"میں نے عرض کیا: جی ہاں آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ یہیں چھوڑ کر مسجد میں جاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔ "چنانچہ میں نے مسجد کے اندر دو رکعت نماز پڑھی، آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم دیا کہ وہ مجھے ایک اوقیہ چاندی دے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھکاؤ کے ساتھ مجھے ایک اوقیہ چاندی تول دی۔ پھر میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا: " جابر کو میرے پاس بلاؤ۔ " میں نے دل میں سوچا کہ اب آپ میرا اونٹ مجھے واپس کردیں گے اور مجھے یہ بات بہت ہی ناپسندتھی۔ آپ نے فرمایا: " تم اونٹ بھی لے لو اور اس کی قیمت بھی لے جاؤ۔ "
حدیث حاشیہ:
(1)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دومسئلے ثابت کیے ہیں:٭چوپاؤں اور گدھوں وغیرہ کی خریدو فروخت میں کوئی حرج نہیں۔آدمی خواہ کتنا ہی بڑا ہو اور اس کے خدمت کار بھی ہوں،اسے اپنی ضروریات خریدنے میں عار نہیں سمجھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے اور آپ کی سنت پر عمل کرنا ہی باعث خیروبرکت ہے۔٭ایجاب وقبول سے بیع پختہ ہوجاتی ہے۔خریدار کا خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرنا ضروری نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے،اگرچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اونٹ فروخت کرتے وقت یہ شرط طے کرلی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سواری کروں گا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔(2)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کرتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے۔(3)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالک سے ازخود بیع کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے،نیز بزرگوں کو اپنے عقیدت مندوں کے حالات دریافت کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا بھی پتہ چلتا ہے۔والله اعلم.
ترجمۃ الباب:
جب کوئی شخص سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور فروخت کرنے والا اس پر سوار ہو تو کیا اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہو گا یا نہیں؟حضرت عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: "تم یہ سر کش اونٹ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ ( ذات الرقاع یا تبوک ) میں تھا۔ میرا اونٹ تھک کرسست ہو گیا۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا جابر ! میں نے عرض کیا، حضور حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہوگیا ہے، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے ( یعنی ہانکنے لگے ) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ ﷺ کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، جابر تو نے شادی بھی کرلی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں ! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ ( حضرت جابر بھی کنورے تھے ) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ ( اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے ) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا۔ اس کے بعد فرمایا، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں ! چنانچہ آپ نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا، رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا۔ پھر ہم مسجد آئے تو آنحضرت ﷺ مسجد کے دروازہ پر ملے۔ آپ نے دریافت فرمایا، کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فرمایا، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جاکے دو رکعت نماز پڑھ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ آپ نے یہی فرمایاکہ یہ اپنا اونٹ لے جا اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب کی دونوں حدیثوں میں کہیں گدھے کا ذکرنہیں جس کا بیان ترجمہ باب میں ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گدھے کو اونٹ پر قیاس کیا۔ دونوں چوپائے اور سواری کے جانو رہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیچتے وقت یہ شرط کر لی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سوار ہوں گا۔ امام احمد اور اہل حدیث نے بیع میں یہ شرط اسی حدیث سے درست رکھی ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں بیس جگہوں کے قریب بیان کیا ہے۔ گویا اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): I was with the Prophet (ﷺ) in a Ghazwa (Military Expedition) and my camel was slow and exhausted. The Prophet (ﷺ) came up to me and said, "O Jabir." I replied, "Yes?" He said, "What is the matter with you?" I replied, "My camel is slow and tired, so I am left behind." So, he got down and poked the camel with his stick and then ordered me to ride. I rode the camel and it became so fast that I had to hold it from going ahead of Allah's Apostle (ﷺ) . He then asked me, have you got married?" I replied in the affirmative. He asked, "A virgin or a matron?" I replied, "I married a matron." The Prophet (ﷺ) said, "Why have you not married a virgin, so that you may play with her and she may play with you?" Jabir replied, "I have sisters (young in age) so I liked to marry a matron who could collect them all and comb their hair and look after them." The Prophet (ﷺ) said, "You will reach, so when you have arrived (at home), I advise you to associate with your wife (that you may have an intelligent son)." Then he asked me, "Would you like to sell your camel?" I replied in the affirmative and the Prophet (ﷺ) purchased it for one Uqiya of gold. Allah's Apostle (ﷺ) reached before me and I reached in the morning, and when I went to the mosque, I found him at the door of the mosque. He asked me, "Have you arrived just now?" I replied in the affirmative. He said, "Leave your camel and come into (the mosque) and pray two Rakat." I entered and offered the prayer. He told Bilal (RA) to weigh and give me one Uqiya of gold. So Bilal (RA) weighed for me fairly and I went away. The Prophet (ﷺ) sent for me and I thought that he would return to me my camel which I hated more than anything else. But the Prophet (ﷺ) said to me, "Take your camel as well as its price."