Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam by a definite known specified measure)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2239.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو (مدینہ کے)لوگ پھلوں سال یا دوسال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انھوں نے فرمایا کہ دو سال یا تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ اسماعیل (ابن علیہ) کو شک ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی کھجوروں کے لیے پیشگی ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ معین ماپ اور معین وزن کی وضاحت کے ساتھ بیع سلم کرے۔‘‘ محمد نے بھی اسماعیل ابن علیہ کے طریق سے انھی الفاظ میں یہ روایت بیان کی ہے، یعنی معین ماپ اور مقرر وزن میں بیع سلم کرے۔
تشریح:
(1) بیع سلم میں نقدرقم کو رأس المال اور بیع کو مسلم کہتے ہیں، اس کی چند ایک شرائط ہیں:٭ ماپ یا تول یا گن کردی جانے والی چیزوں میں ماپ، وزن اور تعداد کا تعین ضروری ہے۔ ٭ جو چیز پیشگی قیمت کے عوض ادا کرنی ہے اس کی جنس بیان کی جائے،وہ گندم ہے یا جویاکھجور۔ ٭ اس کی نوعیت اور اوصاف بتانا بھی ضروری ہیں کہ کون سی گندم یا کس قسم کی کھجور دینی ہے۔ ٭ مدت ادائیگی طے کرلی جائے کہ ایک مہینہ یا دو مہینے میں ادائیگی ہوگی، یعنی تاریخ کا تعین بھی ضروری ہے۔ ٭اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ وہ چیز کس جگہ یا مقام پر ادا کی جائے گی۔ ٭رأس المال بھی پیشگی مسلم الیہ کے حوالے کردیا جائے۔ (2) حدیث میں صرف ایک شرط کا بیان ہے کہ کیلی یا وزنی اشیاء کا ماپ اور وزن معین کرنا ضروری ہے، اگر وزن اور ماپ مقرر نہ کیا جائے تو بہت سے مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2172
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2239
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2239
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2239
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو (مدینہ کے)لوگ پھلوں سال یا دوسال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انھوں نے فرمایا کہ دو سال یا تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ اسماعیل (ابن علیہ) کو شک ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی کھجوروں کے لیے پیشگی ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ معین ماپ اور معین وزن کی وضاحت کے ساتھ بیع سلم کرے۔‘‘ محمد نے بھی اسماعیل ابن علیہ کے طریق سے انھی الفاظ میں یہ روایت بیان کی ہے، یعنی معین ماپ اور مقرر وزن میں بیع سلم کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیع سلم میں نقدرقم کو رأس المال اور بیع کو مسلم کہتے ہیں، اس کی چند ایک شرائط ہیں:٭ ماپ یا تول یا گن کردی جانے والی چیزوں میں ماپ، وزن اور تعداد کا تعین ضروری ہے۔ ٭ جو چیز پیشگی قیمت کے عوض ادا کرنی ہے اس کی جنس بیان کی جائے،وہ گندم ہے یا جویاکھجور۔ ٭ اس کی نوعیت اور اوصاف بتانا بھی ضروری ہیں کہ کون سی گندم یا کس قسم کی کھجور دینی ہے۔ ٭ مدت ادائیگی طے کرلی جائے کہ ایک مہینہ یا دو مہینے میں ادائیگی ہوگی، یعنی تاریخ کا تعین بھی ضروری ہے۔ ٭اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ وہ چیز کس جگہ یا مقام پر ادا کی جائے گی۔ ٭رأس المال بھی پیشگی مسلم الیہ کے حوالے کردیا جائے۔ (2) حدیث میں صرف ایک شرط کا بیان ہے کہ کیلی یا وزنی اشیاء کا ماپ اور وزن معین کرنا ضروری ہے، اگر وزن اور ماپ مقرر نہ کیا جائے تو بہت سے مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے خبردی، انہیں عبداللہ بن کثیر نے، انہیں ابومنہال نے او ران سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (مدینہ کے) لوگ پھلوں میں ایک سال یا دو سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انہو ں نے یہ کہا کہ دو سال اور تین سال (کے لیے کرتے تھے) شک اسماعیل کو ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی کھجور میں بیع سلم کرے، اسے مقررہ پیمانے یا مقررہ وزن کے ساتھ کرنی چاہئیے۔ ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو اسماعیل نے خبر دی، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا کہ بیع سلم مقررہ پیمانے اور مقررہ وزن میں ہونی چاہئیے۔
حدیث حاشیہ:
جو چیزیں ماپ تول کر بیچی جاتی ہیں ان میں ماپ تول ٹھہرا کر سلم کرنا چاہئے۔ اگر ماپ تول مقرر نہ کئے جائیں تو یہ بیع سلم جائز نہ ہوگی الغرض اس بیع کے لیے ضروری ہے کہ وزن مقرر ہو اور مدت مقرر ہو ورنہ بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے۔ اسی لیے حدیث ہذا میں اس کے لیے یہ تاکید کی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to Madinah and the people used to pay in advance the price of fruits to be delivered within one or two years. (The sub-narrator is in doubt whether it was one to two years or two to three years.) The Prophet (ﷺ) said, "Whoever pays money in advance for dates (to be delivered later) should pay it for known specified weight and measure (of the dates)." ________