باب: بیع سلم میں یہ میعاد لگانا کہ جب اونٹی بچہ جنے
)
Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam in buying a she-camel to be delivered after it has given birth)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2256.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلة کی مدت کے وعدے پر اونٹوں کی خریدوفروخت کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ حضرت نافع نے حبل الحبلة کی تفسیر بایں الفاظ کی کہ اونٹنی بچہ جنے جو اس کے پیٹ میں ہے۔
تشریح:
(1) دور جاہلیت میں بیع سلم کی ایک عجیب صورت رائج تھی۔ جب کسی کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس اعلی نسل کی اونٹنی ہے تو وہ اس کے مالک سے یہ معاملہ طے کرتا کہ اونٹنی جب حاملہ ہوتو اس کے بچے کا میں خریدار ہوں اور اس کی قیمت پہلے ادا کردیتا۔ اگر مالک کہتا کہ اس بچے کا سودا ہوچکا ہے تو وہ اگلی نسل کا سودا کرنے کےلیے بھی تیار ہوجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمادیا کیونکہ یہ معدوم اور موہوم چیز کی بیع ہے۔ معلوم نہیں اونٹنی کیا جنتی ہے؟ جنتی بھی ہے یا نہیں یا مردہ بچہ جنم دیتی ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ بیع سلم میں اگر میعاد مجہول ہے تو ایسا سودا ناجائز ہے، گو اونٹنی قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنم دیتی ہے، تاہم یہ میعاد مجہول ہے۔ آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوسکتا ہے جو جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ بعض دفعہ قیمت کی ادائیگی کےلیے مہینہ اور دن تو متعین نہ کرتے بلکہ اونٹنی کے بچہ جنم دینے کو وعدہ ٹھہرالیتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حمل کا بچہ بڑا ہوکر جب بچہ جنے تو قیمت ادا ہوگی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔ اس میعاد میں جہالت تھی،اس لیے منع کردیا گیا۔ اس حدیث کے متعلقہ کچھ مباحث کتاب البیوع، حدیث :2143 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2184
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2256
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2256
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2256
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
تمہید باب
یہ جاہلیت کا رواج تھا۔ مہینے اور دن تو متعین نہ کرتے، جہالت اس درجہ کی تھی کہ اونٹنی کے جننے کو وعدہ ٹھہراتے۔ گو اونٹنی اکثر قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنتی ہے۔ مگر پھر بھی آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوجاتا ہے اور نیز نزاع کا باعث ہوگا، اس لیے ایسی مدت لگانے سے منع فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلة کی مدت کے وعدے پر اونٹوں کی خریدوفروخت کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ حضرت نافع نے حبل الحبلة کی تفسیر بایں الفاظ کی کہ اونٹنی بچہ جنے جو اس کے پیٹ میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دور جاہلیت میں بیع سلم کی ایک عجیب صورت رائج تھی۔ جب کسی کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس اعلی نسل کی اونٹنی ہے تو وہ اس کے مالک سے یہ معاملہ طے کرتا کہ اونٹنی جب حاملہ ہوتو اس کے بچے کا میں خریدار ہوں اور اس کی قیمت پہلے ادا کردیتا۔ اگر مالک کہتا کہ اس بچے کا سودا ہوچکا ہے تو وہ اگلی نسل کا سودا کرنے کےلیے بھی تیار ہوجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمادیا کیونکہ یہ معدوم اور موہوم چیز کی بیع ہے۔ معلوم نہیں اونٹنی کیا جنتی ہے؟ جنتی بھی ہے یا نہیں یا مردہ بچہ جنم دیتی ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ بیع سلم میں اگر میعاد مجہول ہے تو ایسا سودا ناجائز ہے، گو اونٹنی قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنم دیتی ہے، تاہم یہ میعاد مجہول ہے۔ آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوسکتا ہے جو جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ بعض دفعہ قیمت کی ادائیگی کےلیے مہینہ اور دن تو متعین نہ کرتے بلکہ اونٹنی کے بچہ جنم دینے کو وعدہ ٹھہرالیتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حمل کا بچہ بڑا ہوکر جب بچہ جنے تو قیمت ادا ہوگی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔ اس میعاد میں جہالت تھی،اس لیے منع کردیا گیا۔ اس حدیث کے متعلقہ کچھ مباحث کتاب البیوع، حدیث :2143 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہیں جویریہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ لوگ اونٹ وغیرہ حمل کے حمل ہونے کی مدت تک کے لیے بیچتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ نافع نے حبل الحبلة کی تفسیر یہ کی ”یہاں تک کہ اونٹی کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ اسے جن لے۔“
حدیث حاشیہ:
پھر اس کا بچہ بڑا ہو کر وہ بچہ جنے جیسے دوسری روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس میعاد میں جہالت تھی۔ دوسرے دھوکہ تھا کہ معلوم نہیں وہ کب بچہ جنتی ہے۔ پھر اس کا بچہ زندہ بھی رہ جاتا ہے یا مرجاتا ہے۔ اگر زندہ رہے تو کب حمل رہتا ہے، کب وضع حمل ہوتا ہے۔ ایسی میعاد اگر سلم میں لگائے تو سلم جائز نہ ہوگی۔ گو عادتاً اس کا وقت معلوم بھی ہو سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The people used to sell camels on the basis of Habal-al-Habala. The Prophet (ﷺ) forbade such sale. Nafi' explained Habalal-Habala by saying. "The camel is to be delivered to the buyer after the she-camel gives birth."