باب : شفعہ کا حق رکھنے والے کے سامنے بیچنے سے پہلے شفعہ پیش کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Shuf'a
(Chapter: The partner should inform his partner before selling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حکم نے کہا کہ اگر بیچنے سے پہلے شفعہ کا حق رکھنے والے نے بیچنے کی اجازت دی تو پھر اس کا حق شفعہ ختم ہو جاتا ہے۔ شعبی نے کہا کہ حق شفعہ رکھنے والے کے سامنے جب مال بیچا گیا اور اس نے اس بیع پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس کا حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔
2258.
حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ’’پڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے‘‘ تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل رہے ہیں۔ بالآخر انھوں نے وہ دونوں مکان حضرت سعد ؓ ہی کو دے دیے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اثبات شفعہ کے اسباب بتائے تھے اور اس عنوان میں اسقاط شفعہ کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ایک شریک دوسرے پر شفعہ پیش کرے اور وہ نہ لے تو ایسا کرنے سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ لیکن کچھ فقہاء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ شفعہ تو ابھی واجب ہی نہیں ہوا۔ وہ بیع کے بعد واجب ہوتا ہے،اس لیے بیع سے پہلے یا بیع کے وقت اس کا جازت دینا کارگر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ موقف صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شریک کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دیے بغیر اسے فروخت کردے اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘ (مسند أحمد:316/3) جب اطلاع دینے کے بعد شریک نے اسے نہیں رکھا تو حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا۔اسی طرح جب شفعہ کرنے والے نے مشتری سے مشفوعہ خرید لیا ہویا خریداری کےلیے بات چیت کرے یا اس سے کرائے پر حاصل کرے یا وہ اپنا حصہ جس کے ذریعے سے شفعے کا حق پیدا ہوا تھا فروخت کردے یا وقف کردے تو ان تمام صورتوں میں حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمسائے کےلیے بھی حق شفعہ ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے محلے میں حضرت ابو رافع ؓ کے دومکان تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سعد ؓ ان میں شریک نہ تھے کیونکہ عمر بن شبہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد ؓ کے بلاط میں دومکان تھے ان کے درمیان دس گز کا فاصلہ تھا اور ان میں جو مسجد کے دائیں جانب تھا وہ حضرت ابو رافع کا مکان تھا جس کو حضرت سعد ؓ نے ان سے خریدا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ ابو رافع ؓ سے مکان خریدنے سے پہلے ان کے ہمسائے تھے، ان کے شریک نہ تھے۔ (فتح الباري:552/4 ،553) بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابو رافع کا ذاتی عمل ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے بطور نیکی اپنا مکان پڑوسی کو دے دیا ہو۔ لیکن اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ محض ہمسائیگی کے ذریعے سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دارہے۔شفعے کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔ (مسند أحمد:303/3) صحیح بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جداجدا ہوجائیں تو پھر شفعے کا حق نہیں رہتا۔ (3) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں امام شافعی سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس ہمسائے کو حق شفعہ ملتا ہے جو جائیداد میں شریک ہو دوسرے کے لیے نہیں لیکن اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی تائید ہوتی ہے۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒ حضرت امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2186
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2258
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2258
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2258
تمہید کتاب
ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جائیداد کا بلا شرکت غیرے مالک ہو،وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا،چنانچہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی جائیداد کے کئی شریک ہوں تو جب تک ان میں اتفاق رہتا ہے شریک اپنے حصے سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے لیکن جب ان میں تنہا فائدہ لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپس میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر شریک دوسرے کو محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ صورت اس وقت زیادہ پریشان کن ثابت ہوتی ہے جب کوئی شریک اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔اس حق تلفی کی روک تھام کےلیے شریعت نے شریک کو شفعے کا حق دیا ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث پر ہے جن کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ شریک اور ہمسایہ دونوں کے لیے ثابت ہے۔اسلامی قانون شفعہ باہمی امن وسکون کی خاطر اس شریک کو جو اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنے کے بجائے اپنے شریک کے ہاتھ فروخت کرے۔اگر وہ شریک نہ خریدنا چاہے تو اس کو اختیار ہے کہ جس کے ہاتھ چاہے فروخت کردے۔اگر ایک شریک جائیداد نے اپنا حصہ کسی غیر شخص کے ہاتھ فروخت کردیا تو دوسرے شریک کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اس خریدار سے اسی قیمت پر بحق شفعہ اس جائیداد کو حاصل کرے۔حق شفعہ اصول پر قائم ہے کہ جائیداد غیر منقسم کا ہر ایک حصہ دار جائیداد کے ہر فرد میں شریک ہو۔جو شریک اپنا حصہ فروخت کرتا ہے وہ دوسرے شرکاء کے حصص کے استفادے میں دخل دیتا ہے جس کی اجازت شرکاء کی رضامندی کے بغیر نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح ہر انسان یہ پسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہمسایہ میسر آئے جو عادات وخصائل اور آداب رہن سہن میں اس جیسا ہو۔اسلامی قانون شفعہ ایک شخص کو یہ بھی حق دیتا ہے کہ اس کی ہمسائیگی میں اگر کوئی جائیداد فروخت ہورہی ہے تو وہ اسے بحق شفعہ حاصل کرلے کیونکہ شفعہ کی دو حکمتیں ہیں:(1) جائیداد کو تقسیم کے نقصانات سے محفوظ رکھا جائے۔(2) ناپسندیدہ اجنبی شخص کو اس کے پڑوس میں داخل ہونے سے روکا جائے۔امام بخای رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انھوں نے شفعے کے متعلق صرف تین احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک مکرر اور دو خالص ہیں۔انھیں بیان کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ منفرد ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے انھیں روایت نہیں کیا۔انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث وآثار پر انھوں نے تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شفعے کے متعلق اپنے رجحانات کو واضح کیا ہے۔عنوانات کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)شفعہ صرف اس جائیداد میں ہوگا جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔جب حد بندی ہوجائے تو شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔(2)فروخت سے پہلے شفعے کو صاحب شفعہ پر پیش کرنا۔(3) کون سا ہمسایہ زیادہ حق دار ہے؟شفعے کے لیے چند ایک شرائط ہیں جو آئندہ بیان ہوں گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی مشروعیت کے متعلق لکھتے ہیں: شفعے کی مشروعیت میں ابوبکر الاصم کے علاوہ کسی نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا۔اہل علم کے نزدیک ایسے شریک کےلیے جس نے ابھی تک اپنا حصہ تقسیم نہیں کیا حق شفعہ ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔( فتح الباری:4/550) ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کرنے کی استدعا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
حکم کے قول کو مصنف ابن ابی شیبہ(7/671) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: اگر شفعہ کرنے والا خریدار کو جائیداد خریدنے کی اجازت دےدے تو اس کا شفعہ ساقط ہوتا ہے۔اسی طرح امام شعبی کے قول کو بھی امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔( المصنف البن ابی شیبۃ:7/671)
حکم نے کہا کہ اگر بیچنے سے پہلے شفعہ کا حق رکھنے والے نے بیچنے کی اجازت دی تو پھر اس کا حق شفعہ ختم ہو جاتا ہے۔ شعبی نے کہا کہ حق شفعہ رکھنے والے کے سامنے جب مال بیچا گیا اور اس نے اس بیع پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس کا حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھاکہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ آئے اورانھوں نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اتنے میں حضرت ابو رافع ؓ جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ تھے آئے اور کہا: اے سعد!تم میرے دونوں مکان جو تمہارے محلے میں واقع ہیں مجھ سے خرید لو۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں خریدتا۔ حضرت مسور ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمھیں یہ مکان خریدنا ہوں گے۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: میں تمھیں چار ہزار (درہم) سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کروں گا۔ حضرت ابو رافع ؓ نے کہا: مجھے تو ان گھروں کے پانچ صد دینار ملتے ہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ’’پڑوسی اپنے قریب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے‘‘ تو میں تمھیں چار ہزار درہم میں ہرگز نہ دیتا خصوصاً جبکہ مجھے پانچ صد دینار مل رہے ہیں۔ بالآخر انھوں نے وہ دونوں مکان حضرت سعد ؓ ہی کو دے دیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اثبات شفعہ کے اسباب بتائے تھے اور اس عنوان میں اسقاط شفعہ کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ایک شریک دوسرے پر شفعہ پیش کرے اور وہ نہ لے تو ایسا کرنے سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ لیکن کچھ فقہاء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ شفعہ تو ابھی واجب ہی نہیں ہوا۔ وہ بیع کے بعد واجب ہوتا ہے،اس لیے بیع سے پہلے یا بیع کے وقت اس کا جازت دینا کارگر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ موقف صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شریک کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دیے بغیر اسے فروخت کردے اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘ (مسند أحمد:316/3) جب اطلاع دینے کے بعد شریک نے اسے نہیں رکھا تو حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا۔اسی طرح جب شفعہ کرنے والے نے مشتری سے مشفوعہ خرید لیا ہویا خریداری کےلیے بات چیت کرے یا اس سے کرائے پر حاصل کرے یا وہ اپنا حصہ جس کے ذریعے سے شفعے کا حق پیدا ہوا تھا فروخت کردے یا وقف کردے تو ان تمام صورتوں میں حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمسائے کےلیے بھی حق شفعہ ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے محلے میں حضرت ابو رافع ؓ کے دومکان تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سعد ؓ ان میں شریک نہ تھے کیونکہ عمر بن شبہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد ؓ کے بلاط میں دومکان تھے ان کے درمیان دس گز کا فاصلہ تھا اور ان میں جو مسجد کے دائیں جانب تھا وہ حضرت ابو رافع کا مکان تھا جس کو حضرت سعد ؓ نے ان سے خریدا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ ابو رافع ؓ سے مکان خریدنے سے پہلے ان کے ہمسائے تھے، ان کے شریک نہ تھے۔ (فتح الباري:552/4 ،553) بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابو رافع کا ذاتی عمل ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے بطور نیکی اپنا مکان پڑوسی کو دے دیا ہو۔ لیکن اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ محض ہمسائیگی کے ذریعے سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دارہے۔شفعے کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔ (مسند أحمد:303/3) صحیح بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جداجدا ہوجائیں تو پھر شفعے کا حق نہیں رہتا۔ (3) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں امام شافعی سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس ہمسائے کو حق شفعہ ملتا ہے جو جائیداد میں شریک ہو دوسرے کے لیے نہیں لیکن اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی تائید ہوتی ہے۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒ حضرت امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت حکیم بیان کرتے ہیں کہ جب فروخت کرنے سے پہلے شفعہ کرنے والا اسے فروفت کرنے کی اجازت دے دے تو پھر(بعد میں) وہ شفعہ نہیں کرسکتا۔امام شعبینے کہا کہ جب شفعہ فروخت کیاجائے اور وہ فروخت کے وقت موجود ہو لیکن اس پر کوئی اعتراض نہ کرے تو اسے بھی شفعے کاحق نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو ابراہیم بن میسرہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن شرید نے، کہا کہ میں سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھا کہ مسور بن مخرمہ ؓ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ میرے شانے پر رکھا۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے غلام ابورافع ؓ بھی آگئے اور فرمایا کہ اے سعد ! تمہارے قبیلہ میں جو میرے دو گھر ہیں، انہیں تم خرید لو۔ سعد ؓ بولے کہ بخدا میں تو انہیں نہیں خریدوں گا۔ اس پر مسور ؓ نے فرمایا کہ نہی جی تمہیں خریدنا ہوگا۔ سعد ؓ نے فرمایا کہ پھر میں چار ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ اور وہ بھی قسط وار۔ ابورافع ؓ نے فرمایا کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حق دار ہے۔ تو میں ان گھروں کو چار ہزار پر تمہیں ہرگز نہ دیتا۔ جب کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گھر ابورافع ؓ نے سعد ؓ کو دے دئیے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث بظاہر حنفیہ کی دلیل ہے کہ ہمسایہ کو شفع کا حق ہے۔ شافعیہ اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ مراد وہی ہمسایہ ہے جو جائیداد مبیعہ میں بھی شریک ہوتا کہ حدیثوں میں اختلاف باقی نہ رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Ash-Sharid (RA): While I was standing with Sad bin Abi Waqqas, Al-Miswar bin Makhrama came and put his hand on my shoulder. Meanwhile Abu Rafi', the freed slave of the Prophet (ﷺ) came and asked Sad to buy from him the (two) dwellings which were in his house. Sad said, "By Allah I will not buy them." Al-Miswar said, "By Allah, you shall buy them." Sad replied, "By Allah, I will not pay more than four thousand (Dirhams) by installments." Abu Rafi' said, "I have been offered five hundred Dinars (for it) and had I not heard the Prophet (ﷺ) saying, 'The neighbor has more right than anyone else because of his nearness, I would not give them to you for four-thousand (Dirhams) while I am offered five-hundred Dinars (one Dinar equals ten Dirhams) for them." So, he sold it to Sad. ________