Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute a trustworthy treasurer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2319.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’امانت دار خزانچی جو چیز جس پر خرچ کرنے یا دینے کا حکم دیا جائے وہ خوشی سے بلا کم و کاست اس اس کے حوالے کردے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہو گا۔‘‘
تشریح:
اس سے معلوم ہوا کہ خازن جو خزانے پر مقرر ہے،جب خوش دلی اور دیانت داری کے ساتھ ادائیگی کرتا ہے تو اسے بھی صدقہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے مالک کے حکم کو بخوشی قبول کیا اور اسے بجالایا۔ مالک کی طرف سے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مال خرچ کرنے میں وہ کیل ہے، امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا بھی یہی مقصد ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2243
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2319
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2319
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2319
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’امانت دار خزانچی جو چیز جس پر خرچ کرنے یا دینے کا حکم دیا جائے وہ خوشی سے بلا کم و کاست اس اس کے حوالے کردے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ خازن جو خزانے پر مقرر ہے،جب خوش دلی اور دیانت داری کے ساتھ ادائیگی کرتا ہے تو اسے بھی صدقہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے مالک کے حکم کو بخوشی قبول کیا اور اسے بجالایا۔ مالک کی طرف سے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مال خرچ کرنے میں وہ کیل ہے، امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا بھی یہی مقصد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے برید بن عبداللہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو خرچ کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ فرمایا کہ جو دیتا ہے حکم کے مطابق کامل اور پوری طرح جس چیز (کے دینے) کا اسے حکم ہو اور اسے دیتے وقت اس کا دل بھی خوش ہو، تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے بخوشی مالک کا حکم بجایا اور صدقہ کردیا۔ اور مالک کی طرف سے مالک کے حکم کے مطابق وہ مال خرچ کرنے میں وکیل ہوا۔ یہی منشائے باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "An honest treasurer who gives what he is ordered to give fully, perfectly and willingly to the person to whom he is ordered to give, is regarded as one of the two charitable persons."