باب : اس کے بارے میں جس نے کہا کہ پانی کا مالک پانی کا زیادہ حق دار ہے
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: Superfluous water should not be withheld from others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہاں تک وہ ( اپنا کھیت باغات وغیرہ ) سیراب کر لے۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ضرورت سے زیادہ جو پانی ہو اس سے کسی کو نہ روکا جائے۔
2354.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ضرورت سے زائد پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ (اس طرح) تم ضرورت سے زائد گھاس کو بچاؤ۔‘‘
تشریح:
(1) پانی کو اس وقت روکنا ممنوع ہے جب وہ پانی مالک کی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب پانی ضروریات سے زائد نہ ہو تو اس کا روکنا جائز ہے۔ زائد پانی وہ ہے جو مالک، اس کے اہل و عیال، کاشتکاری اور مویشیوں کی ضروریات سے فالتو ہو، نیز اس سے مراد وہ پانی ہے جو برتنوں میں محفوظ نہ ہو کیونکہ برتن میں محفوظ زائد پانی کا دینا ضروری نہیں الا یہ کہ پانی لینے والا انتہائی مجبور ہو۔ (2) ایک شخص جب کنواں بناتا تو اس کے اطراف میں ایک رقبہ مخصوص ہو جاتا جہاں جانور آتے اور پانی پیتے، کنویں کے پانی سے سیراب ہو کر آس پاس گھاس بھی اُگ آتی۔ اب کنویں والے گھاس کی حفاظت کا بہانہ بنا کر فالتو پانی روک لیتے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا دیا۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ پانی کا مالک خود اور اپنی فصل کے سیراب ہونے تک زیادہ حق دار ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پانی میں حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے گا، جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ پانی ایسی مشترک چیز نہیں جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ (فتح الباري:40/5) الغرض زائد از ضرورت پانی کسی طرح بھی ہو اسے روکنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2275
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2354
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2354
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2354
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مذکورہ ارشاد نبوی آئندہ متصل سند سے بیان ہو گا۔ زائد پانی سے مراد وہ پانی ہے جو آدمی کی ذاتی، اہل خانہ اور اس کے مویشیوں کی ضرورت سے زائد ہو۔ پانی کا مالک بن جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پانی مملوک بھی ہو سکتا ہے۔
یہاں تک وہ ( اپنا کھیت باغات وغیرہ ) سیراب کر لے۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ضرورت سے زیادہ جو پانی ہو اس سے کسی کو نہ روکا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ضرورت سے زائد پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ (اس طرح) تم ضرورت سے زائد گھاس کو بچاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) پانی کو اس وقت روکنا ممنوع ہے جب وہ پانی مالک کی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب پانی ضروریات سے زائد نہ ہو تو اس کا روکنا جائز ہے۔ زائد پانی وہ ہے جو مالک، اس کے اہل و عیال، کاشتکاری اور مویشیوں کی ضروریات سے فالتو ہو، نیز اس سے مراد وہ پانی ہے جو برتنوں میں محفوظ نہ ہو کیونکہ برتن میں محفوظ زائد پانی کا دینا ضروری نہیں الا یہ کہ پانی لینے والا انتہائی مجبور ہو۔ (2) ایک شخص جب کنواں بناتا تو اس کے اطراف میں ایک رقبہ مخصوص ہو جاتا جہاں جانور آتے اور پانی پیتے، کنویں کے پانی سے سیراب ہو کر آس پاس گھاس بھی اُگ آتی۔ اب کنویں والے گھاس کی حفاظت کا بہانہ بنا کر فالتو پانی روک لیتے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا دیا۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ پانی کا مالک خود اور اپنی فصل کے سیراب ہونے تک زیادہ حق دار ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پانی میں حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے گا، جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ پانی ایسی مشترک چیز نہیں جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ (فتح الباري:40/5) الغرض زائد از ضرورت پانی کسی طرح بھی ہو اسے روکنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب اور ابوسلمہ نے، اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فالتو پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ جو گھاس ضرورت سے زیادہ ہو اسے بھی روک لو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): that Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do not withhold the superfluous water in order to withhold the superfluous grass."