باب: جس نے اپنی ملک میں کوئی کنواں کھودا، اس میں کوئی گر کر مر جائے تو اس پر تاوان نہ ہوگا
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: If one digs a well and somebody falls in it and dies)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2355.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی معاوضہ نہیں، اسی طرح کنویں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان اور جانور سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اور زمین کے دفینے سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) ایک شخص نے اپنی زمین میں کنواں کھودا تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں، اگر کسی کی بکری اس میں گر کر مر جاتی ہے تو کنویں کا مالک اس کا ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کی سازش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔ اگر ثابت ہو جائے کہ اس نے دانستہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کان میں انسان اور مویشی بھی مر سکتے ہیں، اس پر بھی کوئی تاوان یا انتقام نہیں، نیز جانور اگر کسی کو سینگ مارتا ہے تو اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہو گی۔ (2) جب کنویں میں گرنے والے کے خون کا ذمہ دار مالک نہیں ہے کیونکہ اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق نہیں تھا تو پانی کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہو گا کہ اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں۔ جب پانی اس کی ضروریات ہی پوری کرتا ہے تو دوسروں کی ضروریات پر اسے صرف کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جب کوئی مجبور اور لاچار ہو تو اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2276
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2355
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2355
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2355
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے یہ قید لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں اہل کوفہ کے ساتھ متفق ہیں کہ اگر یہ کنواں اپنی ملک میں کھودا ہو تب کنواں والے پر ضمان نہ ہوگا۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ کسی حال میں ضمان نہ ہوگا۔ خواہ اپنی ملک میں ہو یا غیر ملک میں۔ مزید تفصیل کتاب الدیات میں آئے گی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی معاوضہ نہیں، اسی طرح کنویں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان اور جانور سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اور زمین کے دفینے سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ایک شخص نے اپنی زمین میں کنواں کھودا تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں، اگر کسی کی بکری اس میں گر کر مر جاتی ہے تو کنویں کا مالک اس کا ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کی سازش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔ اگر ثابت ہو جائے کہ اس نے دانستہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کان میں انسان اور مویشی بھی مر سکتے ہیں، اس پر بھی کوئی تاوان یا انتقام نہیں، نیز جانور اگر کسی کو سینگ مارتا ہے تو اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہو گی۔ (2) جب کنویں میں گرنے والے کے خون کا ذمہ دار مالک نہیں ہے کیونکہ اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق نہیں تھا تو پانی کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہو گا کہ اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں۔ جب پانی اس کی ضروریات ہی پوری کرتا ہے تو دوسروں کی ضروریات پر اسے صرف کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جب کوئی مجبور اور لاچار ہو تو اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبید اللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کان (میں مرنے والے) کا تاوان نہیں، کنویں (میں گر کر مرجانے والے) کا تاوان نہیں۔ اور کسی کا جانور (اگر کسی آدمی کو مارے تو اس کا) تاوان نہیں۔ گڑھے ہوئے مال میں سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "No bloodmoney will be charged if somebody dies in a mine or in a well or is killed by an animal; and if somebody finds a treasure in his land he has to give one-fifth of it to the Government."