باب : جن کے نزدیک حوض والا اور مشک کا مالک ہی اپنے پانی کا زیادہ حق دار ہے
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The owner od a tank or a leather water-container)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2366.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایاگیا تو آپ نے اس سے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا جبکہ بزرگ حضرات آپ کی بائیں جانب تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’برخوردار!مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ پیالہ بزرگوں کو دے دوں؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں اپنے حصے پر جو آپ کی طرف سے میرے نصیب میں ہے کسی کوترجیح دینے پر راضی نہیں، تو آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔
تشریح:
(1) شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ جب دائیں جانب بیٹھنے والا صرف دائیں جانب ہونے کی وجہ سے اس پیالے کا زیادہ حق دار ہوا تو جس نے حوض بنایا اور مشکیزہ تیار کیا وہ بطریق اولیٰ پہلے اس پانی کا حق دار ہو گا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت بایں طور ہے کہ حوض اور مشکیزے کے پانی کو پیالے کے پانی پر قیاس کیا۔ اگر دائیں جانب والا پیالے کا حق دار نہ ہوتا تو آپ اس سے اجازت کیوں طلب کرتے۔ (فتح الباري:55/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2285
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2366
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2366
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2366
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایاگیا تو آپ نے اس سے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا جبکہ بزرگ حضرات آپ کی بائیں جانب تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’برخوردار!مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ پیالہ بزرگوں کو دے دوں؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں اپنے حصے پر جو آپ کی طرف سے میرے نصیب میں ہے کسی کوترجیح دینے پر راضی نہیں، تو آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ جب دائیں جانب بیٹھنے والا صرف دائیں جانب ہونے کی وجہ سے اس پیالے کا زیادہ حق دار ہوا تو جس نے حوض بنایا اور مشکیزہ تیار کیا وہ بطریق اولیٰ پہلے اس پانی کا حق دار ہو گا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت بایں طور ہے کہ حوض اور مشکیزے کے پانی کو پیالے کے پانی پر قیاس کیا۔ اگر دائیں جانب والا پیالے کا حق دار نہ ہوتا تو آپ اس سے اجازت کیوں طلب کرتے۔ (فتح الباري:55/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے کم عمر تھا۔ بڑی عمر والے صحابہ آپ کی بائیں طرف تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اے لڑکے! کیا تمہاری اجازت ہے کہ میں اس پیالے کا بچا ہوا پانی بوڑھوں کو دوں؟ اس نے جواب دیا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کا جھوٹا اپنے حصہ کا کسی کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب سے مطلب اس طرح ہے کہ حوض اور مشک کو پیالے پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا وجہ مناسبت یہ ہے کہ جب داہنی طرف بیٹھنے والا پیالہ کا زیادہ حق دار ہوا صرف داہنی طرف بیٹھنے کی وجہ سے تو جس نے حوض بنایا، مشک تیار کیا، وہ بطریق اولیٰ پہلے اس کے پانی کا حق دار ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): Once a tumbler (full of milk or water) was brought to Allah's Apostle (ﷺ) who drank from it, while on his right side there was sitting a boy who was the youngest of those who were present, and on his left side there were old men. The Prophet (ﷺ) asked, "O boy ! Do you allow me to give (the drink) to the elder people (first)?" The boy said, "I will not prefer anybody to have my share from you, O Allah's Apostle! (ﷺ) " So, he gave it to the boy.