Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: Milking she-camels at water places)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2378.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اونٹنیوں کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ چشموں پر دوہا جائے۔‘‘
تشریح:
(1) عربوں کے ہاں یہ بات متعارف تھی کہ جب اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں یا چشموں پر لے جاتے تو وہاں اونٹنیوں کو دوہتے اور دودھ فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے۔ ضرورت مند لوگ چشموں پر جمع رہتے تاکہ دودھ پئیں۔ حدیث میں اسی حق کو نشاندہی کی گئی ہے۔ (2) اسی طرح اگر پھل توڑا جا رہا ہے یا فصل کاٹی جا رہی ہے تو اس وقت بھی غرباء کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے۔ یہ باقاعدہ زکاۃ ادا کرنے سے الگ معاملہ ہے۔ ہمارے دور میں دیہاتوں کے اندر یہ حق متعارف تھا کہ جب گندم کا ڈھیر اٹھایا جاتا تو ’’ریوڑی‘‘ کے نام سے آخر میں ہاتھ بھر بھر کر گندم تقسیم کی جاتی تھی۔ واضح رہے کہ یہ ’’حق‘‘ واجب یہ فرض نہیں بلکہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2297
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2378
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2378
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2378
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اونٹنیوں کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ چشموں پر دوہا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عربوں کے ہاں یہ بات متعارف تھی کہ جب اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں یا چشموں پر لے جاتے تو وہاں اونٹنیوں کو دوہتے اور دودھ فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے۔ ضرورت مند لوگ چشموں پر جمع رہتے تاکہ دودھ پئیں۔ حدیث میں اسی حق کو نشاندہی کی گئی ہے۔ (2) اسی طرح اگر پھل توڑا جا رہا ہے یا فصل کاٹی جا رہی ہے تو اس وقت بھی غرباء کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے۔ یہ باقاعدہ زکاۃ ادا کرنے سے الگ معاملہ ہے۔ ہمارے دور میں دیہاتوں کے اندر یہ حق متعارف تھا کہ جب گندم کا ڈھیر اٹھایا جاتا تو ’’ریوڑی‘‘ کے نام سے آخر میں ہاتھ بھر بھر کر گندم تقسیم کی جاتی تھی۔ واضح رہے کہ یہ ’’حق‘‘ واجب یہ فرض نہیں بلکہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اونٹ کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ پانی کے پاس دوہا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "One of the rights of a she camel is that it should be milked at a place of water."