Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: The talk of opponents against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2418.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا جو اس کے ذمے تھا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوگئیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے سنیں جبکہ آپ اپنے گھر میں تشریف فرماتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے اور آواز دی: ’’اے کعب!‘‘ حضرت کعب ؓ نے جواب دیا: اللہ کےرسول ﷺ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے قرض میں اتنا کم کردو۔‘‘ آپ نے نصف کم کرنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں نے(آدھا کم) کردیا۔ آپ نے(دوسرے فریق سے) فرمایا: ’’اٹھو اور باقی قرض ادا کرو۔‘‘
تشریح:
رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایک بہترین راستہ اختیار فرمایا۔ مقروض اگر تنگ دست ہو تو اسے رعایت دینا ضروری ہے اور ایسے حالات میں صاحب مال کو جو کچھ ملے اسے صبروشکر سے قبول کر لینا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا اس طرح ثابت کیا ہے کہ ان دونوں حضرات کی آوازیں جھگڑے کی بنا پر بلند ہونے لگیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ دونوں آپس میں تکرار کرنے اور جھگڑنے لگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی جھگڑے میں مدعی اور مدعا علیہ ایک دوسرے کو سخت سست کہیں تو ایسا ممکن ہے لیکن وہ اخلاقی اور شرعی حدود سے آگے نہ بڑھیں۔ (فتح الباري:94/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2334
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2418
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2418
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2418
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
( یہ غیبت میں داخل نہیں ہے ) بشرطیکہ ایسا کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالیں جس میں حد یا تعزیر واجب ہو، ورنہ سزا دی جائے گی ) باب کے ذیل حافظ مرحوم فرماتے ہیں : ای فیما لا یوجب حدا و لا تعزیرا فلا یکون ذلک من الغیبة المحرمة ذکر فیہ اربعة احادیث یعنی مدعی اور مدعی علیہ آپس میں ایسا کلام کریں جس پر حد واجب نہ ہوتی ہو اور نہ تعزیر۔ پس ایسا کلام غیبت محرمہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس باب کے ذیل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چار احادیث ذکر فرمائی ہے پہلی اور دسری حدیث ابن مسعود اور اشعث رضی اللہ عنہ کی ہے والغرض منه قولہ قلت یا رسول اللہ اذا یحلف و یذهب بما لی فانه نسبه الی الحلف الکاذب و لم یوخذ بذلک لانه اخبر بما یعلمه منه فی حال التظلم منه یعنی غرض حدیث اشعث رضی اللہ عنہ سے یہ ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدعیٰ علیہ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم کھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ آپ نے مدعی کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ تیسری حدیث کعب بن مالک ؓ کی ہے۔ جس میں فارتفعت اصواتهما کے الفاظ ہیں اور بعض طرق میں فتلاحیا کا لفظ بھی آیا ہے کہ وہ دونوں باہمی طور پر جھگڑنے لگے۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوگا ہے۔ چھوٹی حدیث ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس میں حضرت عمر ؓ نے محض اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت ہشام ؓ پر انکار فرمایا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ دوران مقدمہ عین عدالت میں مدعی اور مدعیٰ علیہ آپس میں بعض دفعہ کچھ سخت کلامی کر گزرتے ہیں اوربعض اوقات عدالت ان پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہاں اگر حد کے باہر کوئی شخص عدالت کا احترام بالائے طاق رکھ کر سخت کلامی کرے گا تو یقینا وہ قابل سزا ہوگا۔
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا جو اس کے ذمے تھا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوگئیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے سنیں جبکہ آپ اپنے گھر میں تشریف فرماتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے اور آواز دی: ’’اے کعب!‘‘ حضرت کعب ؓ نے جواب دیا: اللہ کےرسول ﷺ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے قرض میں اتنا کم کردو۔‘‘ آپ نے نصف کم کرنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں نے(آدھا کم) کردیا۔ آپ نے(دوسرے فریق سے) فرمایا: ’’اٹھو اور باقی قرض ادا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایک بہترین راستہ اختیار فرمایا۔ مقروض اگر تنگ دست ہو تو اسے رعایت دینا ضروری ہے اور ایسے حالات میں صاحب مال کو جو کچھ ملے اسے صبروشکر سے قبول کر لینا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا اس طرح ثابت کیا ہے کہ ان دونوں حضرات کی آوازیں جھگڑے کی بنا پر بلند ہونے لگیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ دونوں آپس میں تکرار کرنے اور جھگڑنے لگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی جھگڑے میں مدعی اور مدعا علیہ ایک دوسرے کو سخت سست کہیں تو ایسا ممکن ہے لیکن وہ اخلاقی اور شرعی حدود سے آگے نہ بڑھیں۔ (فتح الباري:94/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک نے، انہوں نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اور دونوں کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ رسول کریم ﷺ نے بھی گھر میں سن لی۔ آپ نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر پکارا اے کعب ! انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دے اور آپ نے آدھا قرض کم کردینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کم کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد ؓ سے فرمایا کہ اٹھ اب قرض ادا کردے۔
حدیث حاشیہ:
جھگڑا طے کرانے کا ایک بہترین راستہ آپ ﷺ نے اختیار فرمایا۔ اور بے حد خوش قسمت ہیں وہ دونوں فریق جنہوں نے دل و جان سے آپ کا یہ فیصلہ منظور کر لیا۔ مقروض اگر تنگ دست ہے تو ایسی رعایت دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور صاحب مال کو بہر صورت صبر اور شکر کے ساتھ جو ملے وہ لے لینا ضروری ہوجاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Ka'b bin Malik (RA): Ka'b demanded his debt back from Ibn Abi Hadrad in the Mosque and their voices grew louder till Allah's Apostle (ﷺ) heard them while he was in his house. He came out to them raising the curtain of his room and addressed Ka'b, "O Ka'b!" Ka'b replied, "Labaik, O Allah's Apostle." (He said to him), "Reduce your debt to one half," gesturing with his hand. Kab said, "I have done so, O Allah's Apostle! (ﷺ) " On that the Prophet (ﷺ) said to Ibn Abi Hadrad, "Get up and repay the debt, to him."