Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: How the Luqata at Makkah is to be announced)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مکہ کے لقطہ میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا مکہ کا لقطہ ہی اٹھانا منع ہے۔ بعض نے کہا اٹھانا تو جائز ہے لیکن ایک سال کے بعد بھی پانے والے کی ملک نہیں بنتا، اور جمہور مالکیہ اور بعض شافعیہ کا قول یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اور ملکوں کے لقطہ کی طرح ہے۔ حافظ نے کہا کہ شاید امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اٹھانا جائز ہے۔ اور یہ باب لاکر انہوں نے اس راویت کی ضعف کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ حاجیوں کی پڑی ہوئی چیز اٹھانا منع ہے۔ ( وحیدی ) اور طاؤس نے کہا، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مکہ کے لقطہ کو صرف وہی شخص اٹھائے جو اعلان کرلے، اور خالد حذاءنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباسؓ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے لقطہ کو اٹھانا صرف اسی کے لیے درست ہے جو اس کا اعلان بھی کرے۔
2433.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ مکہ کی جھاڑیاں نہ کاٹی جائیں اور نہ اس کے شکار ہی کو بھگایاجائے، نیز اس کالقطہ صرف اس شخص کے لیے اٹھانا جائز ہے جو اس کی تشہیر کرنے والا ہو اور اس کی گھاس کو بھی نہ کاٹا جائے۔‘‘ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اذخر کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اذخر گھاس کی اجازت ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2349
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2433
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2433
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2433
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی پہلی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،جزاءالصید،حدیث:1834) دوسری روایت کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے موصولاً بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2090)
مکہ کے لقطہ میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا مکہ کا لقطہ ہی اٹھانا منع ہے۔ بعض نے کہا اٹھانا تو جائز ہے لیکن ایک سال کے بعد بھی پانے والے کی ملک نہیں بنتا، اور جمہور مالکیہ اور بعض شافعیہ کا قول یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اور ملکوں کے لقطہ کی طرح ہے۔ حافظ نے کہا کہ شاید امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اٹھانا جائز ہے۔ اور یہ باب لاکر انہوں نے اس راویت کی ضعف کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ حاجیوں کی پڑی ہوئی چیز اٹھانا منع ہے۔ ( وحیدی ) اور طاؤس نے کہا، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مکہ کے لقطہ کو صرف وہی شخص اٹھائے جو اعلان کرلے، اور خالد حذاءنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباسؓ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے لقطہ کو اٹھانا صرف اسی کے لیے درست ہے جو اس کا اعلان بھی کرے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ مکہ کی جھاڑیاں نہ کاٹی جائیں اور نہ اس کے شکار ہی کو بھگایاجائے، نیز اس کالقطہ صرف اس شخص کے لیے اٹھانا جائز ہے جو اس کی تشہیر کرنے والا ہو اور اس کی گھاس کو بھی نہ کاٹا جائے۔‘‘ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اذخر کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اذخر گھاس کی اجازت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس رضی ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز وہ اٹھائے جو اس کا اعلان کرے۔ "حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مکہ مکرمہ کالقطہ وہی اٹھائے جو اس کی تشہیر کرے۔ "
حدیث ترجمہ:
اور احمد بن سعد نے کہا، ان سے روح نے بیان کیا، ان سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مکہ کے درخت نہ کاٹے جائیں، وہاں کے شکار نہ چھیڑے جائیں، اور وہاں کے لقطہ کو صرف وہی اٹھائے جو اعلان کرے، اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اذخر کی اجازت دے دیجئے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اذخر کی اجازت دے دی۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ لقطہ کے متعلق مکہ شریف اور دوسرے مقامات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) also said, "It (i.e., Makkah's) thorny bushes should not be uprooted and its game should not be chased, and picking up its fallen things is illegal except by him who makes public announcement about it, and its grass should not be cut." 'Abbas said, "O Allah's Messenger ! Except Idhkhir (a kind of grass)." The Prophet (ﷺ) said, "Except Idhkhir."