باب : جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دے دے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: If somebody allows another to do something)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2455.
حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔
تشریح:
اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے حرص اور لالچ کی نشاندہی ہوتی ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، نیز ایسا کرنا دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے مترادف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مظالم میں اسی لیے بیان کیا ہے۔ اگر دوسرے شرکاء اس کی اجازت دے دیں اور اپنا حق چھوڑ دیں تو ایسا کرنا جائز ہے، نیز اگر کھجوریں کسی کی ذاتی ہیں تو انہیں مٹھی بھر کر بھی کھا سکتا ہے، لیکن حصے داری کی صورت میں ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں دوسروں کی حق تلفی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2371
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2455
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2455
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2455
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے حرص اور لالچ کی نشاندہی ہوتی ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، نیز ایسا کرنا دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے مترادف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مظالم میں اسی لیے بیان کیا ہے۔ اگر دوسرے شرکاء اس کی اجازت دے دیں اور اپنا حق چھوڑ دیں تو ایسا کرنا جائز ہے، نیز اگر کھجوریں کسی کی ذاتی ہیں تو انہیں مٹھی بھر کر بھی کھا سکتا ہے، لیکن حصے داری کی صورت میں ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں دوسروں کی حق تلفی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہل عراق کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہوناپڑا۔ عبداللہ بن زبیر ؓ کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ جب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے (دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت) دو کھجور کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے لے۔
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہ کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔ دوسرے علماءکے نزدیک تنزیہی ہے۔ اور وجہ ممانعت کی ظاہر ہے کہ دوسرے کا حق تلف کرنا ہے اور اس سے حرص اور طمع معلوم ہوتی ہے۔ نووی نے کہا اگر کھجور مشترک ہو تو دوسرے شریکوں کی بن اجازت ایسا کرنا حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔ حافظ نے کہا اس حدیث سے اس شخص کا مذہب قوی ہوتا ہے جس نے مجہول کا ہبہ جائز رکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabala (RA): "We were in Madinah with some of the Iraqi people, and we were struck with famine and Ibn Az-Zubair used to give us dates. Ibn 'Umar (RA) used to pass by and say, "The Prophet (ﷺ) forbade us to eat two dates at a time, unless one takes the permission of one's companions."