باب: مشرک غلام کو آزادکرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: Manumission of a Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2538.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ !مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک انسان کا ثواب کی نیت سے غلام آزاد کرنا جائز ہے لیکن اس کا ثواب تب ہی ملے گا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کفر کی حالت میں ان لوگوں کی عبادت صحیح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾’’ان کی کوشش (نیکی اور اچھائی) دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی۔‘‘ (الکھف104:18) بلکہ اس کے بعد جب مسلمان ہو گا تو بحالت کفر کیے ہوئے نیک اعمال سے فائدہ حاصل کرے گا، چنانچہ حکیم بن حزام ؒ نے جب غلام آزاد کیے تو وہ اس وقت کافر تھے، ان کو ثواب مسلمان ہونے کے بعد حاصل ہوا، تو جس انسان نے بحالت مسلمان غلاموں کو آزاد کیا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب حاصل ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ کافر کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی اور نہ اسے آخرت ہی میں کوئی ثواب ملے گا، البتہ مسلمان بندوں پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ ان کی زمانۂ کفر میں کی ہوئی نیکیاں برقرار رہتی ہیں جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2451
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2538
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2538
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2538
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ خواہ وہ غلام مشرک کافر ہی کیوں نہ ہو، اس کو آزاد کرنا بھی نیکی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو مسائل انسانی مفاد عامہ سے متعلق ہیں ان میں اسلام نے مذہبی تعصب سے بالا ہوکر محض انسانی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ یہی اسلام کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہے، کاش! مغرب زدہ لوگ اسلام کا بغور مطالعہ کرکے حقیقت حق سے واقفیت حاصل کریں۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ !مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک انسان کا ثواب کی نیت سے غلام آزاد کرنا جائز ہے لیکن اس کا ثواب تب ہی ملے گا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کفر کی حالت میں ان لوگوں کی عبادت صحیح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾’’ان کی کوشش (نیکی اور اچھائی) دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی۔‘‘ (الکھف104:18) بلکہ اس کے بعد جب مسلمان ہو گا تو بحالت کفر کیے ہوئے نیک اعمال سے فائدہ حاصل کرے گا، چنانچہ حکیم بن حزام ؒ نے جب غلام آزاد کیے تو وہ اس وقت کافر تھے، ان کو ثواب مسلمان ہونے کے بعد حاصل ہوا، تو جس انسان نے بحالت مسلمان غلاموں کو آزاد کیا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب حاصل ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ کافر کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی اور نہ اسے آخرت ہی میں کوئی ثواب ملے گا، البتہ مسلمان بندوں پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ ان کی زمانۂ کفر میں کی ہوئی نیکیاں برقرار رہتی ہیں جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ حکیم بن حزام ؓ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، یا رسول اللہ ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہے جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا (ہشام بن عروہ نے کہا کہ أتحنث بها کے معنی أتبرر بها کے ہیں) انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے اس پر فرمایا ’’جو نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو وہ سب قائم رہیں گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔ مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔ اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔ جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾(النساء:54)(وحیدی) حضرت حکیم بن حزام ؓ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔ چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔ پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔ غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔ ﴿وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ﴾(الشوریٰ:20)یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hisham (RA): My father told me that Hakim bin Hizam manumitted one-hundred slaves in the pre-lslamic period of ignorance and slaughtered one-hundred camels (and distributed them in charity). When he embraced Islam he again slaughtered one-hundred camels and manumitted one-hundred slaves. Hakim said, "I asked Allah's Apostle, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! What do you think about some good deeds I used to practice in the prelslamic period of ignorance regarding them as deeds of righteousness?' Allah's Apostle (ﷺ) said, "You have embraced Islam along with all those good deeds you did."