باب : مکاتب سے کونسی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو ( وہ شرط باطل ہے )
)
Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: Writing of emancipations and conditions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابن عمرؓ کی ایک روایت ہے۔
2561.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں تعاون لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ابھی تک انھوں نے اپنے بدل ِکتابت سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے مالکان کے پاس جاؤ، اگر وہ پسند کریں کہ بدل کتابت کی تمام (باقی ماندہ) رقم میں یکمشت ادا کردوں اور تمہاری ولا میرے ساتھ قائم ہوتو میں ایسا کرسکتی ہوں حضرت بریرۃ ؓ نے جب یہ صورت اپنے مالکان کے سامنے رکھی توانھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اورکہا: اگروہ تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہیں تو بلاشبہ کریں لیکن تیری ولا ہمارے لیے ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آ پ نے ان سے فرمایا: ’’توخرید کراسے آزادکردے، ولاتو اسی کا حق ہے جو آزاد کرتاہے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اورفرمایا: ’’لوگوں کاعجیب حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے؟ جس نے ایسی شرط لگائی جو (یعنی جس کی اصل) کتاب اللہ میں نہ ہو وہ اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا اگرچہ ایسی شرطیں ہی کیوں نہ لگالے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی مبنی برحق اورزیادہ مضبوط ہے۔‘‘
تشریح:
(1) مکاتب کی شرائط یہ ہیں کہ وہ عاقل بالغ ہو اور عقد کتابت کو قبول کرے۔ اس میں کتابت کی رقم ذکر کی جائے کہ وہ یکمشت ادا ہو گی یا قسطوں میں ادا کی جائے گی۔ اس میں کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع امت کے خلاف ہو۔ ایسی تمام شرائط ناقابل قبول ہوں گی۔ (2) ’’جو شرائط اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے امام ابن خزیمہ ؒ کے حوالے سے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا جواز یا وجوب ثابت نہ ہو۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے کیونکہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔ کبھی قیمت میں یہ شرط ہوتی ہے، یعنی اس قسم کے روپے ہوں گے یا اتنی مدت میں ادا کیے جائیں گے، یہ شرطیں صحیح ہیں اگرچہ اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري:232/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2472
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2561
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2561
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2561
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے اس کی ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط عائد کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا: "ولاء تو آزاد کرنے والے کے لیے ہے۔" (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2156)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں تعاون لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ابھی تک انھوں نے اپنے بدل ِکتابت سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے مالکان کے پاس جاؤ، اگر وہ پسند کریں کہ بدل کتابت کی تمام (باقی ماندہ) رقم میں یکمشت ادا کردوں اور تمہاری ولا میرے ساتھ قائم ہوتو میں ایسا کرسکتی ہوں حضرت بریرۃ ؓ نے جب یہ صورت اپنے مالکان کے سامنے رکھی توانھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اورکہا: اگروہ تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہیں تو بلاشبہ کریں لیکن تیری ولا ہمارے لیے ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آ پ نے ان سے فرمایا: ’’توخرید کراسے آزادکردے، ولاتو اسی کا حق ہے جو آزاد کرتاہے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اورفرمایا: ’’لوگوں کاعجیب حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے؟ جس نے ایسی شرط لگائی جو (یعنی جس کی اصل) کتاب اللہ میں نہ ہو وہ اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا اگرچہ ایسی شرطیں ہی کیوں نہ لگالے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی مبنی برحق اورزیادہ مضبوط ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مکاتب کی شرائط یہ ہیں کہ وہ عاقل بالغ ہو اور عقد کتابت کو قبول کرے۔ اس میں کتابت کی رقم ذکر کی جائے کہ وہ یکمشت ادا ہو گی یا قسطوں میں ادا کی جائے گی۔ اس میں کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع امت کے خلاف ہو۔ ایسی تمام شرائط ناقابل قبول ہوں گی۔ (2) ’’جو شرائط اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے امام ابن خزیمہ ؒ کے حوالے سے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا جواز یا وجوب ثابت نہ ہو۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے کیونکہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔ کبھی قیمت میں یہ شرط ہوتی ہے، یعنی اس قسم کے روپے ہوں گے یا اتنی مدت میں ادا کیے جائیں گے، یہ شرطیں صحیح ہیں اگرچہ اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري:232/5)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں حضرت ابن عمر ؓکی ایک روایت بھی ہے جو وہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہیں حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ بریرہ ؓ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں، ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کردوں اور تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ ؓ نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ (حضرت عائشہ ؓ) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے، لیکن تمہاری ولاءتو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کردے۔ ولاءتو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کردے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ ان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاسکتا، خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگالے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابن خزیمہ نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب سے ان کا عدم جواز یا عدم وجوب ثابت ہو اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے۔ کیوں کہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔ کبھی ثمن میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اس قسم کے روپے ہوں یا اتنی مدت میں دئیے جائیں یہ شرطیں صحیح ہیں۔ گو اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہ ہو کیوں کہ یہ شرطیں مشروع ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): That 'Aisha (RA) told him that Buraira came to seek her help in her writing of emancipation (for a certain sum) and that time she had not paid anything of it. 'Aisha (RA) said to her, "Go back to your masters, and if they agree that I will pay the amount of your writing of emancipation and get your Wala', I will do so." Buraira informed her masters of that but they refused and said, "If she (i.e. 'Aisha (RA)) is seeking Allah's reward, then she can do so, but your Wala' will be for us." 'Aisha (RA) mentioned that to Allah's Apostle (ﷺ) who said to her, "Buy and manumit her, as the Wala' is for the liberator." Allah's Apostle (ﷺ) then got up and said, "What about the people who stipulate conditions which are not present in Allah's Laws? Whoever imposes conditions which are not present in Allah's Laws, then those conditions will be invalid, even if he imposed these conditions a hundred times. Allah's conditions (Laws) are the truth and are more solid."