باب : اگر مکاتب دوسروں سے مدد چاہے اور لوگوں سے سوال کرے تو کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: Al-Mukatab is permitted to ask others to help him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2563.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بریرہ ؓ آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے آقاؤں سے نو اوقیے چاندی پر مکاتبت کامعاملہ کیاہے۔ مجھے ہرسال ایک اوقیہ ادا کرناہوگا، لہذا آپ میری مدد کریں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں انھیں یہ رقم یکمشت اداکرکے تجھے آزاد کردوں (تو) میں ایسا کرسکتی ہوں لیکن تیری ولا میرے لیے ہوگی، چنانچہ حضرت بریرہ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں تو انھوں نے اس صورت سے صاف انکارکردیا مگر یہ کہ ولا ان کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ سنا تو مجھ سے دریافت کیا، چنانچہ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اسے لے کر آزاد کردو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولاتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا، اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’ أما بعد!تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل اللہ کی کتاب میں نہیں ہے؟جس شرط کی اصل اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کافیصلہ ہی برحق اور اللہ کی شرط ہی مضبوط ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے، وہ کہتے ہیں: اے فلاں!تو آزاد کرلیکن ولا میرے لیے ہوگی۔ ولا کا مالک تو وہی ہے جوآزاد کرے۔‘‘
تشریح:
(1) مکاتب چونکہ غلام ہے جس کی انسانیت ناقص ہوتی ہے، اس انسانیت کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا جائز ہے، اس کے لیے وہ لوگوں سے اپیل کر سکتا ہے کہ میرے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ میں غلامی سے اپنی گردن آزاد کروا لوں۔ اس کی محتاجی بھوکے انسان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات اس کی جمع شدہ پونجی بدل کتابت کے لیے ناکافی ہوتی ہے، اس لیے وہ سوال کر کے بھی مانگ سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سوال کا استعانت پر عطف، خاص کا عام پر عطف ہے، حضرت بریرہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوال کرنے کر برقرار رکھا۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کی وضاحت کر دیتے۔ (فتح الباري:236/5) (2) اس حدیث میں نو اوقیے چاندی کا ذکر ہے جبکہ قبل ازیں پانچ اوقیے چاندی کا بیان تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا تھا۔ جب پانچ اوقیے چاندی باقی رہ گئی تو بریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ سے تعاون لینے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2474
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2563
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2563
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2563
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بریرہ ؓ آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے آقاؤں سے نو اوقیے چاندی پر مکاتبت کامعاملہ کیاہے۔ مجھے ہرسال ایک اوقیہ ادا کرناہوگا، لہذا آپ میری مدد کریں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں انھیں یہ رقم یکمشت اداکرکے تجھے آزاد کردوں (تو) میں ایسا کرسکتی ہوں لیکن تیری ولا میرے لیے ہوگی، چنانچہ حضرت بریرہ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں تو انھوں نے اس صورت سے صاف انکارکردیا مگر یہ کہ ولا ان کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ سنا تو مجھ سے دریافت کیا، چنانچہ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اسے لے کر آزاد کردو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولاتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا، اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’ أما بعد!تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل اللہ کی کتاب میں نہیں ہے؟جس شرط کی اصل اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کافیصلہ ہی برحق اور اللہ کی شرط ہی مضبوط ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے، وہ کہتے ہیں: اے فلاں!تو آزاد کرلیکن ولا میرے لیے ہوگی۔ ولا کا مالک تو وہی ہے جوآزاد کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مکاتب چونکہ غلام ہے جس کی انسانیت ناقص ہوتی ہے، اس انسانیت کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا جائز ہے، اس کے لیے وہ لوگوں سے اپیل کر سکتا ہے کہ میرے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ میں غلامی سے اپنی گردن آزاد کروا لوں۔ اس کی محتاجی بھوکے انسان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات اس کی جمع شدہ پونجی بدل کتابت کے لیے ناکافی ہوتی ہے، اس لیے وہ سوال کر کے بھی مانگ سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سوال کا استعانت پر عطف، خاص کا عام پر عطف ہے، حضرت بریرہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوال کرنے کر برقرار رکھا۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کی وضاحت کر دیتے۔ (فتح الباري:236/5) (2) اس حدیث میں نو اوقیے چاندی کا ذکر ہے جبکہ قبل ازیں پانچ اوقیے چاندی کا بیان تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا تھا۔ جب پانچ اوقیے چاندی باقی رہ گئی تو بریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ سے تعاون لینے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے والد سے، ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بریرہ ؓ آئیں اور کہا کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوق یہ چاندی پر مکاتبت کا معاملہ کیا ہے۔ ہر سال ایک اوق یہ مجھے ادا کرنا پڑے گا۔ آپ بھی میری مدد کریں۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں انہیں (یہ ساری رقم) ایک ہی مرتبہ دے دوں اور پھر تمہیں آزاد کردوں، تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاءمیرے ساتھ ہوجائے گی۔ بریرہ ؓ اپنے مالکوں کے پاس گئیں تو انہوں نے اس صورت سے انکار کیا (واپس آکر) انہوں نے بتایا کہ میں نے آپ کی یہ صورت ان کے سامنے رکھی تھی لیکن وہ اسے صرف اس صورت میں قبول کرنے کو تیار ہیں کہ ولاءان کے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا تو آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا۔ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو انہیں لے کر آزاد کردے اور انہیں ولاءکی شرط لگانے دے۔ ولاءتو بہر حال اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب کیا۔ اللہ کی حمد و ثناءکے بعد فرمایا، تم میں سے کچھ لوگوں کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی شرط ایسی ہو جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہے۔ خواہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرط ہی مضبوط ہے کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں، اے فلاں ! آزاد تم کرو اور ولاءمیرے ساتھ قائم رہے گی۔ ولاءتو صرف اسی کے ساتھ قائم ہوگی جو آزاد کرے۔
حدیث حاشیہ:
نو اوقیہ کا ذکر راوی کا وہم ہے۔ صحیح یہی ہے کہ پانچ اوقیہ پر معاملہ ہوا تھا۔ ممکن ہے شروع میں نو کا ذکر ہوا اور راوی نے اسی کو نقل کردیا ہو۔ یہ مضمون پیچھے مفصل ذکر ہوچکا ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ویمکن الجمع بأن التسع اصل والخمس کانت بقیت علیها و بهذا أجزم القرطبي والمحب الطبري الخیعنی اس طرح جمع ممکن ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں۔ قرطبی اور محب طبری نے اسی تطبیق پر جزم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Buraira came (to 'Aisha (RA)) and said, "I have made a contract of emancipation with my masters for nine Uqiyas (of gold) to be paid in yearly installments. Therefore, I seek your help." 'Aisha (RA) said, "If your masters agree, I will pay them the sum at once and free you on condition that your Wala' will be for me." Buraira went to her masters but they refused that offer. She (came back) and said, "I presented to them the offer but they refused, unless the Wala' was for them." Allah's Apostle (ﷺ) heard of that and asked me about it, and I told him about it. On that he said, "Buy and manumit her and stipulate that the Wala' should be for you, as Wala' is for the liberator." 'Aisha (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) then got up amongst the people, Glorified and Praised Allah, and said, 'Then after: What about some people who impose conditions which are not present in Allah's Laws? So, any condition which is not present in Allah's Laws is invalid even if they were one-hundred conditions. Allah's ordinance is the truth, and Allah's condition is stronger and more solid. Why do some men from you say, O so-and-so! manumit the slave but the Wala will be for me? Verily, the Wala is for the liberator."