Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Superiority of giving gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2566.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اے مسلمان بیبیو!کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے بکری کاکھر بھی ہوتوا سے حقیر خیال نہ کرے۔‘‘
تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا تحفہ، خواہ کتنا حقیر معلوم ہو اپنی پڑوسن کو بھیجنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آ جاتا ہے کہ یہ تو حقیر چیز ہے اسے دینے کا کیا فائدہ، یہ خیال غلط ہے۔ اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ (2) بکری کے کھر سے مراد کسی چیز کے معمولی ہونے میں مبالغہ ہے کیونکہ عادت کے طور پر کھر کا ہدیہ نہیں بھیجا جاتا۔ بہرحال جو بھی شے موجود ہو اپنی پڑوسن کو بھیجے اور قلیل ہونے کے باعث اس کو حقیر خیال نہ کرے کیونکہ سخاوت موجود چیز کی ہوتی ہے تھوڑی سی خیرات کرنا بالکل نہ کرنے سے بہتر ہے۔ (فتح الباري:345/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2477
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2566
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2566
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2566
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اے مسلمان بیبیو!کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے بکری کاکھر بھی ہوتوا سے حقیر خیال نہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مطلب یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا تحفہ، خواہ کتنا حقیر معلوم ہو اپنی پڑوسن کو بھیجنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آ جاتا ہے کہ یہ تو حقیر چیز ہے اسے دینے کا کیا فائدہ، یہ خیال غلط ہے۔ اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ (2) بکری کے کھر سے مراد کسی چیز کے معمولی ہونے میں مبالغہ ہے کیونکہ عادت کے طور پر کھر کا ہدیہ نہیں بھیجا جاتا۔ بہرحال جو بھی شے موجود ہو اپنی پڑوسن کو بھیجے اور قلیل ہونے کے باعث اس کو حقیر خیال نہ کرے کیونکہ سخاوت موجود چیز کی ہوتی ہے تھوڑی سی خیرات کرنا بالکل نہ کرنے سے بہتر ہے۔ (فتح الباري:345/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عاصم بن علی ابوالحسین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے مسلمان عورتو ! ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے ( معمولی ہد یہ کو بھی ) حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
جس پر بہت ہی ذرا سا گوشت ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی ہمسائی کا ہدیہ خوشی سے قبول کرے، اس کے لینے سے ناک بھوں نہ چڑھائے۔ نہ زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے اس کی حقارت نکلے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اس کے دل کو رنج ہوگا اور کسی مسلمان کا دل دکھانا بڑا گناہ ہے۔ حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ اپنے پڑوس والوں کو تحفہ تحائف پیش کرنا سنت ہے گو وہ کم قیمت ہی کیوں نہ ہو۔ روایت میں بکری کے کھر کا ذکر ہے جو بیکار جان کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر ہدیہ کی کم قیمتی کے ظاہر کرنے کے لیے کیاگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "O Muslim women! None of you should look down upon the gift sent by her she-neighbour even if it were the trotters of the sheep (fleshless part of legs)."