مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے شکار کے بازو کا تحفہ ابوقتادہ سے قبول فرمایا تھا ( اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا )
2573.
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ’’ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔‘‘
تشریح:
محرم آدمی کے لیے شکار پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اسے گوشت کا کچھ حصہ پیش کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پورا شکار زندہ شکل میں پیش کیا جائے۔ ان دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔ گوشت کا کچھ حصہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ شکار کا زندہ جانور قبول کرنا قابل اعتراض ہے کیونکہ احرام والا شخص شکار کا مالک نہیں ہو سکتا اور جب اسے غیر محرم ذبح کر دے تو اس کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت ہے جو شکار کے حکم میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کا تحفہ قبول فرمایا کیونکہ انہوں نے گوشت حاضر خدمت کیا تھا جبکہ حضرت صعب ؓ کا شکار واپس کر دیا کیونکہ انہوں نے اسے زندہ شکل میں پیش کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہر دو وقت احرام کی حالت میں تھے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2484
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2573
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2573
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2573
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ حدیث باب نمبر: 3 کے تحت ابھی ابھی گزری ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ۔۔۔۔،حدیث:2570) اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک گورخر شکار کیا اور اس کے شانے کا گوشت آپ کو پیش کیا تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔
اور نبی کریم ﷺ نے شکار کے بازو کا تحفہ ابوقتادہ سے قبول فرمایا تھا ( اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا )
حدیث ترجمہ:
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ’’ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
محرم آدمی کے لیے شکار پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اسے گوشت کا کچھ حصہ پیش کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پورا شکار زندہ شکل میں پیش کیا جائے۔ ان دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔ گوشت کا کچھ حصہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ شکار کا زندہ جانور قبول کرنا قابل اعتراض ہے کیونکہ احرام والا شخص شکار کا مالک نہیں ہو سکتا اور جب اسے غیر محرم ذبح کر دے تو اس کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت ہے جو شکار کے حکم میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کا تحفہ قبول فرمایا کیونکہ انہوں نے گوشت حاضر خدمت کیا تھا جبکہ حضرت صعب ؓ کا شکار واپس کر دیا کیونکہ انہوں نے اسے زندہ شکل میں پیش کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہر دو وقت احرام کی حالت میں تھے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺنے حضرت ابوقتادہ سے شکار کے بازو (دستی) کاگوشت قبول فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اور اور وہ صعب بن جثامہ ؓ سے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گورخر کا تحفہ پیش کیا تھا۔ آپ ﷺ اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے (راوی کو شبہ ہے) آپ ﷺ نے ان کا تحفہ واپس کردیا۔ پھر ان کے چہرے پر (رنج کے آثار) دیکھ کر فرمایا کہ میں نے یہ تحفہ صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
إنما قبل الصید من أبي قتادہ وردہ علی الصعب مع أنه صلی اللہ علیه وسلم کان في الحالین محرما لأن المحرم لایملك الصید و یملك مذبوح الحلال لأنه کقطعة لحم لم یبق في حکم الصید(عینی) آنحضرت ﷺ نے ابوقتادہ ؓ کا شکار قبول فرمالیا اور صعب بن جثامہ ؓ کا واپس فرمادیا۔ حالانکہ آپ ہر دو حالتوں میں محرم تھے۔ اس کی وجہ یہ کہ محرم شکار محض کو ملکیت میں نہیں لے سکتا اور حلال ذبیحہ کو ملکیت میں لے سکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ گوشت کے ٹکڑے کی مانند ہے جو شکار کے حکم میں باقی نہیں رہا۔ پس صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا پیش کردہ گوشت شکار محض تھا اور آپ محرم تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اسے واپس فرمادیا۔ ( صلی اللہ علیه وسلم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Sa'b bin Jaththama (RA): An onager was presented to Allah's Apostle (ﷺ) at the place called Al-Abwa' or Waddan, but Allah's Apostle (ﷺ) rejected it. When the Prophet (ﷺ) noticed the signs of sorrow on the giver's face he said, "We have not rejected your gift, but we are in the state of Ihram." (i.e. if we were not in a state of Ihram we would have accepted your gift, Fateh-al-Bari page 130, Vol. 6)