باب : جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The received, unreceived, divided and undivided gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
2603.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے میرا قرض ادا کیا اور مجھے اس سے زیادہ بھی دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2513
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2603
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2603
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2603
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے حدیث: 2607 اور 2608 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ غیر تقسیم شدہ چیز کا ہبہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ مشاع کا ہبہ صحیح ہے۔
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے میرا قرض ادا کیا اور مجھے اس سے زیادہ بھی دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قبیلہ ہوازن کو وہ مال ہبہ کردیا جو ان سے بطور غنیمت حاصل کیاتھا، اور وہ مال غنیمت ابھی غیر تقسیم شدہ تھا۔
حدیث ترجمہ:
اور ثابت بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب نے اور ان سے جابر ؓ نے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (سفر سے لوٹ کر) مسجد میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے (میرے اونٹ کی قیمت) ادا کی اور کچھ زیادہ بھی دیا۔
حدیث حاشیہ:
جو چیز قبضہ میں ہو اس کا ہبہ تو بالاتفاق درست ہے اور جو چیز قبضے میں نہ ہو اس کا ہبہ اکثر علماءکے نزدیک جائز نہیں ہے۔ مگر امام بخاری ؒ نے اس کا جواز اسی طرح اس مال کے ہبہ کا جواز جو تقسیم نہ ہوا ہو، باب کی حدیث سے نکالا اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے لوٹ کا مال جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا، نہ تقسیم ہوا تھا، ہوازن کے لوگوں کو ہبہ کردیا۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ قبضہ تو ہوگیا تھا کیوں کہ یہ اموال مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے، گو تقسیم نہ ہوئے تھے۔ ثابت بن محمد کا قول مذکوربقول بعض تعلیق نہیں ہے۔ کیوں کہ بعض نسخوں میں یوں ہی حدثنا ثابت یعنی امام بخاری ؒ کہتے ہیں ہم سے ثابت نے بیان کیا۔ دوسری روایت میں جابر ؓ کا واقعہ شاید حضر مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ وہ اونٹ بھی آپ ﷺ نے مجھ کو ہبہ کردیا تو قبضہ سے پہلے ہبہ ثابت ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے جابر ؓ کو جو سونا یا چاندی قیمت سے زیادہ دلوایا اسے جابر ؓ نے بطور تبرک ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور خرچ نہ کیا۔ یہاں تک کہ یوم الحرۃ آیا۔ یہ لڑائی 63ھ میں ہوئی۔ جب یزیدی فوج نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا۔ حرہ مدینہ کا ایک میدان ہے وہاں یہ لڑائی ہوئی تھی۔ اسی جنگ میں ظالموں نے حضرت جابر ؓ سے اس تبرک نبوی کو چھین لیا۔ آج کل بھی جگہ جگہ بہت سی چیزیں لوگوں نے تبرکات نبوی کے نام سے رکھی ہوئی ہیں۔ کہیں آپ ﷺ کے موئے مبارک بتلائے جاتے ہیں اور کہیں قدم مبارک کے نشان وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب بے سند چیزیں ہیں اور ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر یہ افتراءہوں اور ایسے مفتری اپنے آپ کو زندہ دوزخی بنالیں۔ جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے اوپر کوئی افتراء باندھا وہ زندہ دوزخی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) said, "I went to the Prophet (ﷺ) in the mosque and he paid me my right and gave me more than he owed me".