باب : جب کوئی کسی شخص کو گھوڑا سواری کے لیے ہدیہ کر دے تو وہ عمریٰ اور صدقہ کی طرح ہوتا ہے ( کہ اسے واپس نہیں لیا جاسکتا )
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: If somebody gives another person a horse (as a gift))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
لیکن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ واپس لیا جاسکتا ہے۔
2636.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔‘‘
تشریح:
(1) شارح بخاری ابن بطال ؒفرماتے ہیں: فی سبیل اللہ گھوڑے پر سواری کرنا اگر تملیک کے لیے ہے تو وہ صدقے کی طرح ہے، اگر اس نے قبضہ کر لیا ہے تو اس میں رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور اگر جہاد کے لیے وقف کیا ہے تو بھی رجوع جائز نہیں۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ (2) قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے مالک بنا دیا تھا۔ گھوڑے کو فی سبیل اللہ وقف نہیں کیا تھا۔ اگر وقف ہوتا تو اس کے فروخت کرنے اور حضرت عمر ؓ کے خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دراصل امام بخاری ؒ ایک موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ہبہ میں رجوع جائز ہے اگرچہ وہ اجنبی کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ موقف صحیح نہیں۔ ہبہ میں رجوع جائز نہیں جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ (فتح الباري:303/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2544
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2636
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2636
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2636
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی نے گھوڑا فی سبیل اللہ سواری کے لیے دیا ہے تو وہ عمریٰ اور صدقہ کی طرح ہے، اس میں رجوع جائز نہیں جبکہ بعض ائمہ کا موقف ہے کہ اس طرح کسی کو گھوڑا دینے سے وہ مالک نہیں بن جاتا بلکہ دینے والے کو اس میں رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ لیکن یہ موقف آئندہ حدیث سے ٹکراتا ہے۔
لیکن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ واپس لیا جاسکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شارح بخاری ابن بطال ؒفرماتے ہیں: فی سبیل اللہ گھوڑے پر سواری کرنا اگر تملیک کے لیے ہے تو وہ صدقے کی طرح ہے، اگر اس نے قبضہ کر لیا ہے تو اس میں رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور اگر جہاد کے لیے وقف کیا ہے تو بھی رجوع جائز نہیں۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ (2) قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے مالک بنا دیا تھا۔ گھوڑے کو فی سبیل اللہ وقف نہیں کیا تھا۔ اگر وقف ہوتا تو اس کے فروخت کرنے اور حضرت عمر ؓ کے خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دراصل امام بخاری ؒ ایک موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ہبہ میں رجوع جائز ہے اگرچہ وہ اجنبی کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ موقف صحیح نہیں۔ ہبہ میں رجوع جائز نہیں جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ (فتح الباري:303/5)
ترجمۃ الباب:
بعض لوگ کہتے ہیں : وہ اس میں رجوع کر سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، کہا کہ میں نے مالک سے سنا، انہوں نے زید بن اسلم سے پوچھا تھا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ عمر ؓ نے کہا میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے ایک شخص کو دے دیا تھا، پھر میں نے دیکھا کہ وہ اسے بیچ رہا ہے۔ اس لیے میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ اسے واپس میں ہی خرید لوں؟ آپ نے فرمایا اس گھوڑے کو نہ خرید۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لو۔
حدیث حاشیہ:
وہ جس کو دیا اس کی ملک ہوچکا اب اس میں رجوع جائز نہیں۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khatab (RA): Once I gave a horse (for riding) in Allah's Cause. Later I saw it being sold. I asked Allah's Apostle (ﷺ) (whether I could buy it). He said, "Don't buy it, for you should not get back what you have given in charity."