Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The witness of a wet nurse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2660.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی، ایک عورت آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے فرمایا: ’’جب یہ بات کہہ دی گئی ہے تواب کیا ہوسکتا ہے؟اس عورت کو اپنے سے علیحدہ کردو۔‘‘ یا اس جیسا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔
تشریح:
اس حدیث کے مطابق دودھ کے سلسلے میں ایک ہی دودھ پلانے والی کی گواہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گواہی کو کافی سمجھتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی، چنانچہ اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو رشتۂ ازدواج ختم کرنا پڑا۔ سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو کیونکہ اس میں تمہارے لیے کوئی خیر و برکت نہیں ہے۔‘‘ (سنن الدارقطني:162/2) ایک دوسری روایت میں ہے: حضرت عقبہ بن حارث ؓ نے جب اسے علیحدہ کر دیا تو اس نے کسی اور شخص سے شادی کر لی۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2640، وفتح الباري:332/5)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2568
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2660
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2660
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2660
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی، ایک عورت آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے فرمایا: ’’جب یہ بات کہہ دی گئی ہے تواب کیا ہوسکتا ہے؟اس عورت کو اپنے سے علیحدہ کردو۔‘‘ یا اس جیسا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق دودھ کے سلسلے میں ایک ہی دودھ پلانے والی کی گواہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گواہی کو کافی سمجھتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی، چنانچہ اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو رشتۂ ازدواج ختم کرنا پڑا۔ سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو کیونکہ اس میں تمہارے لیے کوئی خیر و برکت نہیں ہے۔‘‘ (سنن الدارقطني:162/2) ایک دوسری روایت میں ہے: حضرت عقبہ بن حارث ؓ نے جب اسے علیحدہ کر دیا تو اس نے کسی اور شخص سے شادی کر لی۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2640، وفتح الباري:332/5)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا عمر بن سعید سے، وہ ابن ابی ملیکہ سے، ان سے عقبہ بن حارث نے بیان کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تھی۔ پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ اس لیے میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ جب تمہیں بتادیا گیا (کہ ایک ہی عورت تم دونوں کی دودھ کی ماں ہے) تو پھر اب اور کیا صورت ہوسکتی ہے اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کردے یا اسی طرح کے الفاظ آپ ﷺنے فرمائے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ رضاع کے بارے میں ایک ہی عورت مرضعہ کی شہادت کافی ہے جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے، اس سے مرضعہ کی شہادت کا بھی اثبات ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin Al-Harith (RA): I married a woman and later on a woman came and said, "I suckled you both." So, I went to the Prophet (ﷺ) (to ask him about it). He said, "How can you (keep her as a wife) when it has been said (that you were foster brother and sister)? Leave (divorce) her.