باب : کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کرسکتا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: Should the Imam suggest reconciliation?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2706.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی ؓ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت کعب ؓ نے انھیں پکڑ لیا حتیٰ کہ دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نبی کریم ﷺ ادھرسے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’اے کعب!‘‘ اور اپنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا۔ گویا آپ نصف قرض کم کرنے کا فرمارہے تھے، چنانچہ حضرت کعب ؓ نے اپنے قرض سے نصف لے لیا اور نصف معاف کردیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اخلاقی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جمہور کا موقف ہے کہ حاکم کو صلح کے متعلق حکم دینے کا اختیار ہے اگرچہ فریقین میں سے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو جبکہ مالکیہ کا کہنا ہے کہ حاکم کو کسی کی حق تلفی کا اختیار نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان پہلے موقف کی طرف ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ (2) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت کعب ؓ کا قرض دو اوقیے چاندی تھا۔ انہوں نے ایک اوقیہ وصول کر کے دوسرا معاف کر دیا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:780/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2610
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2706
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2706
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2706
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، ان کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی ؓ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت کعب ؓ نے انھیں پکڑ لیا حتیٰ کہ دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نبی کریم ﷺ ادھرسے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’اے کعب!‘‘ اور اپنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا۔ گویا آپ نصف قرض کم کرنے کا فرمارہے تھے، چنانچہ حضرت کعب ؓ نے اپنے قرض سے نصف لے لیا اور نصف معاف کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اخلاقی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جمہور کا موقف ہے کہ حاکم کو صلح کے متعلق حکم دینے کا اختیار ہے اگرچہ فریقین میں سے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو جبکہ مالکیہ کا کہنا ہے کہ حاکم کو کسی کی حق تلفی کا اختیار نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان پہلے موقف کی طرف ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ (2) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت کعب ؓ کا قرض دو اوقیے چاندی تھا۔ انہوں نے ایک اوقیہ وصول کر کے دوسرا معاف کر دیا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:780/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا اور ان سے کعب بن مالک ؓ نے کہ عبداللہ بن حدرد اسلمی ؓ پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا، (آخر تکرار میں) دونوں کی آواز بلند ہوگئی۔ نبی کریم ﷺ ادھر سے گزرے تو آپ نے فرمایا، اے کعب ! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، جيسے آپ کہہ رہے ہوں کہ آدھا (قرض کم کردے) چنانچہ انہوں نے آدھا قرض چھوڑ دیا اور آدھا لیا۔
حدیث حاشیہ:
اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اگر مقروض نادار ہے تو اس کو ڈھیل دینا یا پھر معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ جو قرض خواہ کے اعمال خیر میں لکھا جاے گا ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ﴾(البقرة:280) آیت قرآنی کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Kab bin Malik from Kab bin Malik (RA): Abdullah bin Abu Hadrad Al-Aslami owed Kab bin Malik some money. One day the latter met the former and demanded his right, and their voices grew very loud. The Prophet (ﷺ) passed by them and said, "O Ka'b," beckoning with his hand as if intending to say, "Deduct half the debts." So, Kab took half what the other owed him and remitted the other half.