Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: Reconciliation in case of dispute concerning debts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2710.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد کے اندر اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے گھر میں سماعت فرمایا۔ آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اوراپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر حضرت کعب بن مالک ؓ کو آواز دی: ’’اے کعب!‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدھا قرض معاف کردو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں نے ایسا کردیا۔ آپ نے مقروض سے فرمایا: ’’اٹھو اور باقی ماندہ قرض ادا کردو۔‘‘
تشریح:
قرض کے متعلق صلح کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ کمی کر دی جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آئندہ ادائیگی کے وعدے پر اس میں کمی کر دی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاتے ہی حضرت کعب بن مالک ؓ نے اپنے مقروض کا نصف قرض معاف کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اٹھو اور باقی ماندہ نصف جلد ادا کر دو۔‘‘ دوسری یہ ہے کہ نقد ادا کرنے پر اس میں سے کچھ کم کر دیا جائے، یعنی تین سو روپے قرض کی فوری ادائیگی پر ایک سو روپیہ چھوڑ دیا جائے، دو سو روپیہ وصول کر کے مقروض کو رہا کر دیا جائے۔ حدیث میں نقد ادائیگی کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے نقد کو قرض پر قیاس کیا ہے۔ جب قرض میں صلح ہو سکتی ہے تو نقد ادائیگی میں بطریق اولیٰ صلح ہونی چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2614
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2710
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2710
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2710
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد کے اندر اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے گھر میں سماعت فرمایا۔ آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اوراپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر حضرت کعب بن مالک ؓ کو آواز دی: ’’اے کعب!‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدھا قرض معاف کردو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں نے ایسا کردیا۔ آپ نے مقروض سے فرمایا: ’’اٹھو اور باقی ماندہ قرض ادا کردو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
قرض کے متعلق صلح کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ کمی کر دی جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آئندہ ادائیگی کے وعدے پر اس میں کمی کر دی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاتے ہی حضرت کعب بن مالک ؓ نے اپنے مقروض کا نصف قرض معاف کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اٹھو اور باقی ماندہ نصف جلد ادا کر دو۔‘‘ دوسری یہ ہے کہ نقد ادا کرنے پر اس میں سے کچھ کم کر دیا جائے، یعنی تین سو روپے قرض کی فوری ادائیگی پر ایک سو روپیہ چھوڑ دیا جائے، دو سو روپیہ وصول کر کے مقروض کو رہا کر دیا جائے۔ حدیث میں نقد ادائیگی کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے نقد کو قرض پر قیاس کیا ہے۔ جب قرض میں صلح ہو سکتی ہے تو نقد ادائیگی میں بطریق اولیٰ صلح ہونی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور انہیں کعب بن مالک ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے اپنا قرض طلب کیا، جو ان کے ذمہ تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کا واقعہ ہے۔ مسجد کے اندر ان دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی سنی۔ آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ باہر آئے اور اپنے حجرہ کا پردہ اٹھاکر کعب بن مالک ؓ کو آواز دی۔ آپ نے پکارا اے کعب! انہوں نے کہا یا رسول اللہ، میں حاضر ہوں۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا معاف کردے۔ کعب ؓ نے کہا کہ میں نے کردیا یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (ابن ابی حدرد ؓ سے) فرمایا کہ اب اٹھو اور قرض ادا کردو۔ (حدیث اور باب میں مطابق ظاہر ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Kab (RA): That Ka'b bin Malik told him that in the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) he demanded his debt from Ibn Abu Hadrad in the Mosque. Their voices grew louder till Allah's Apostle (ﷺ) heard them while he was in his house. So he lifted the curtain of his room and called Ka'b bin Malik saying, "O Ka'b!" He replied, "Labbaik! O Allah's Apostle! (ﷺ) " He beckoned to him with his hand suggesting that he deduct half the debt. Ka'b said, "I agree, O Allah's Apostle! (ﷺ) " Allah's Apostle (ﷺ) then said (to Ibn Abu Hadrad), "Get up and pay him the rest."