Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The sale of pollinated date-palms)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2716.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی شخص کھجور کا پیوند شدہ درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے۔ ہاں اگر خریدار پھل کی شرط لگادے تو پھل سمیت درخت اس کا ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) خرید و فروخت کرتے وقت درخت کے پھل کا ذکر نہ ہو تو اگر درخت پیوند شدہ ہے تو پھل بیچنے والے کا ہو گا۔ اگر سودا کرتے وقت خریدار پھل کی شرط کر لے تو پھر پھل وہی کاٹے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خریدوفروخت میں ایسی مناسب شرائط لگانا جائز ہیں، پھر آئندہ اس قسم کی شرائط کا ہی اعتبار ہو گا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے خرید و فروخت کرتے وقت ایسی شرط لگائی جو حقیقی عقد کے منافی ہو تو وہ شرع کے بھی خلاف ہو گی۔ ایسی صورت میں حقیقی عقد کے مطابق ہی عمل کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں جواب شرط ذکر نہیں کیا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے صرف شرط ذکر کرنے کو کافی سمجھا گیا ہے۔ یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2203)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2619
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2716
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2716
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2716
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی شخص کھجور کا پیوند شدہ درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے۔ ہاں اگر خریدار پھل کی شرط لگادے تو پھل سمیت درخت اس کا ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) خرید و فروخت کرتے وقت درخت کے پھل کا ذکر نہ ہو تو اگر درخت پیوند شدہ ہے تو پھل بیچنے والے کا ہو گا۔ اگر سودا کرتے وقت خریدار پھل کی شرط کر لے تو پھر پھل وہی کاٹے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خریدوفروخت میں ایسی مناسب شرائط لگانا جائز ہیں، پھر آئندہ اس قسم کی شرائط کا ہی اعتبار ہو گا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے خرید و فروخت کرتے وقت ایسی شرط لگائی جو حقیقی عقد کے منافی ہو تو وہ شرع کے بھی خلاف ہو گی۔ ایسی صورت میں حقیقی عقد کے مطابق ہی عمل کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں جواب شرط ذکر نہیں کیا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے صرف شرط ذکر کرنے کو کافی سمجھا گیا ہے۔ یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2203)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس نے کوئی ایسا کھجور کا باغ بیچا جس کی پیوند کاری ہو چکی تھی تو اس کا پھل (اس سال کے) بیچنے والے ہی کا ہوگا۔ ہاں اگر خریدار شرط لگادے۔ (تو پھل سمیت بیع سمجھی جائے گی)۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ بیع و شراءمیں ایسی مناسب شرطوں کا لگانا جائز ہے۔ پھر معاملہ شرطوں کے ساتھ ہی طے سمجھا جائے گا۔ پیوند کاری کے بعد اگر خریدنے والا اسی سال کے پھل کی شرط لگالے، تو پھل اس کا ہوگا، ورنہ مالک ہی کا رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If someone sells pollinated date-palms, their fruits will be for the seller, unless the buyer stipulates the contrary."