Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: Conditions for Wala')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2729.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت بریرہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی کے عوض اپنے مالکان سے عقد کتابت کر لیاہے کہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہو گا، لہٰذا آپ میرا تعاون کریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگرمالکان پسند کریں تو میں یکمشت ان کو تیرا بدل کتابت ادا کردیتی ہوں۔ البتہ تیری ولا میرے لیے ہو گی، اگر انھیں منظور ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ اپنے مالکان کے پاس گئی، ان سے کہا تو انھوں نے اس طرح کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ ان کے پاس سے واپس آئی تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فر تھے۔ اس نے کہا: میں نے مالکان پر یہ معاملہ پیش کیا ہے لیکن وہ لوگ ولا کے بغیر معاملہ کرنے سے منکر ہیں۔ نبی ﷺ نے بھی یہ سن لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبر دی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم بریرہ ؓ کو خریدلو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولا کا حق دار تو وہی ہے جو آزاد کرتا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے ایسا کردیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں۔ جو شرط کتاب اللہ میں نہ ہووہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ برحق اور اس کی شرط ہی قابل اعتبار ہے۔ آگاہ رہو! ولا کا حق تو اسی کا ہے جو اسے آزاد کرے۔‘‘
تشریح:
(1) ولا ایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو اپنے آزاد کردہ غلام لونڈی پر حاصل ہوتا ہے۔ اگر آزاد کردہ مر جائے تو آزاد کرنے والا بھی اس کا ایک وارث ہوتا ہے۔ عرب لوگ اس حق کو فروخت کر دیتے اور ہبہ میں دے دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق ولا میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا ثبوت کتاب اللہ میں نہ ہو، جائز شرطیں جو فریقین طے کر لیں وہ تسلیم ہوں گی، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ولا کی شرط لگائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: تم ان سے ولا کی شرط کر لو لیکن وضاحت کر دی کہ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، غلط شرط کا کوئی اعتبار نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2631
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2729
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2729
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2729
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت بریرہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی کے عوض اپنے مالکان سے عقد کتابت کر لیاہے کہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہو گا، لہٰذا آپ میرا تعاون کریں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگرمالکان پسند کریں تو میں یکمشت ان کو تیرا بدل کتابت ادا کردیتی ہوں۔ البتہ تیری ولا میرے لیے ہو گی، اگر انھیں منظور ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ اپنے مالکان کے پاس گئی، ان سے کہا تو انھوں نے اس طرح کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ ان کے پاس سے واپس آئی تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فر تھے۔ اس نے کہا: میں نے مالکان پر یہ معاملہ پیش کیا ہے لیکن وہ لوگ ولا کے بغیر معاملہ کرنے سے منکر ہیں۔ نبی ﷺ نے بھی یہ سن لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبر دی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم بریرہ ؓ کو خریدلو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولا کا حق دار تو وہی ہے جو آزاد کرتا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے ایسا کردیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں۔ جو شرط کتاب اللہ میں نہ ہووہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ برحق اور اس کی شرط ہی قابل اعتبار ہے۔ آگاہ رہو! ولا کا حق تو اسی کا ہے جو اسے آزاد کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ولا ایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو اپنے آزاد کردہ غلام لونڈی پر حاصل ہوتا ہے۔ اگر آزاد کردہ مر جائے تو آزاد کرنے والا بھی اس کا ایک وارث ہوتا ہے۔ عرب لوگ اس حق کو فروخت کر دیتے اور ہبہ میں دے دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق ولا میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا ثبوت کتاب اللہ میں نہ ہو، جائز شرطیں جو فریقین طے کر لیں وہ تسلیم ہوں گی، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ولا کی شرط لگائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: تم ان سے ولا کی شرط کر لو لیکن وضاحت کر دی کہ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، غلط شرط کا کوئی اعتبار نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ ؓ آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نواوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہوگا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کرسکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہوگی۔ بریرہ ؓ اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاءکے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرماتھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کے ساتھ قائم رہے گی۔ نبی کریم ﷺ نے بھی یہ بات سنی اور حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاءکی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ عائشہ ؓ نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ ﷺ صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناءکے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاءتو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ کہ ولاء میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب اللہ سے نہ ہو۔ ہاں جائز شرطیں جو فریقین طے کرلیں وہ تسلیم ہوں گی۔ اس روایت میں نو اوقیہ کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں پانچ کا جس کی تطبیق یوں دی گئی ہے کہ شاید نواوقیہ پر معاملہ ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں جن کے لیے بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس آنا پڑا ممکن ہے نو کے لئے راوی کا وہم ہو اور پانچ ہی صحیح ہو۔ روایات سے پہلے خیال کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ فتح الباری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa (RA): Aisha said, "Buraira came to me and said, 'My people (masters) have written the contract for my emancipation for nine Awaq) of gold) to be paid in yearly installments, one Uqiyya per year; so help me." Aisha (RA) said (to her), "If your masters agree, I will pay them the whole sum provided the Wala will be for me." Buraira went to her masters and told them about it, but they refused the offer and she returned from them while Allah's Apostles was sitting. She said, "I presented the offer to them, but they refused unless the Wala' would be for them." When the Prophet (ﷺ) heard that and 'Aisha (RA) told him about It, he said to her, "Buy Buraira and let them stipulate that her Wala' will be for them, as the Wala' is for the manumitted." 'Aisha (RA) did so. After that Allah's Apostle (ﷺ) got up amidst the people, Glorified and Praised Allah and said, "What is wrong with some people who stipulate things which are not in Allah's Laws? Any condition which is not in Allah's Laws is invalid even if there were a hundred such conditions. Allah's Rules are the most valid and Allah's Conditions are the most solid. The Wala is for the manumitted."