باب : جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions of Jihad and peace treaties)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2733.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ان (عورتوں) کا امتحان لیتے تھے (جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں)۔ (زہری نے کہا: )ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ حکم نازل فرمایا کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکین کو واپس کردیں جو انھوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہےجو (اب مسلمان ہو کر) ہجرت کر آئی ہیں۔ نیز مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو حضرت عمر ؓ نے اپنی دو بیویوں قربیہ بنت ابو امیہ اور جرول خزاعی کی دختر کو طلاق دے دی۔ بعد میں قربیہ سے حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے شادی کر لی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) دوسری (بیوی) کو ابوجہم نے اپنے عقد میں لے لیا۔ جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنےسے انکار کردیا جو انھوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کیے تھے تو اللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی۔ ’’اور اگر تمھاری کافر بیویوں کے حق مہر سے تمھیں کچھ نہ ملے تو سزا کے طور پر تم معاوضہ خود ہی وصول کر لو۔‘‘ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان، کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے آجاتی۔ اب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر (کفار کےہاں) چلی جائے اس کے اخراجات ان کفار کی عورتوں کے حق مہر سے ادا کر دیے جائیں جو ہجرت کرکے آئی ہی (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے)۔ اور ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی مسلمان مہاجرہ عورت ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہو۔ اور ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ حضرت ابو بصیر بن اسید ثقفی ؓ جب مسلمان مہاجر کی حیثیت سے معاہدے کی مدت کے دوران میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے ایک تحریر کے ذریعے سے نبی ﷺ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر ایک معین مدت تک کے لیے کفار سے صلح کرنا جائز ہے اور ان کے درمیان جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لینا چاہیے، ان پر گواہی بھی تحریر کر لی جائے تاکہ فریقین میں سے جو صلح توڑنا چاہے اس کے خلاف گواہی دی جا سکے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابو بصیر ؓ ساحل سمندر پر عیص نامی مقام پر ٹھہرے اور ابو جندل ؓ بھی بھاگ کر وہاں آ گئے۔ اس طرح وہاں ستر سوار جمع ہو گئے قریش کا جو تجارتی قافلہ آتا اسے لوٹ لیتے۔ آخر کار قریش نے تنگ آ کر معاہدے کی آخری شرط ختم کر دی اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابو بصیر ؓ کی کاروائیوں کو بند کیا جائے۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خط حضرت ابو بصیر ؓ کے نام روانہ فرمایا۔ انہیں جب خط ملا تو وہ حالت نزع میں تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کا گرامی نامہ ہاتھ میں پکڑا اور اسے پڑھتے پڑھتے اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کر دی ۔۔۔ رضي اللہ عنه ۔۔۔(عمدةالقاري:647/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2633
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2733
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2733
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2733
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ان (عورتوں) کا امتحان لیتے تھے (جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں)۔ (زہری نے کہا: )ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ حکم نازل فرمایا کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکین کو واپس کردیں جو انھوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہےجو (اب مسلمان ہو کر) ہجرت کر آئی ہیں۔ نیز مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو حضرت عمر ؓ نے اپنی دو بیویوں قربیہ بنت ابو امیہ اور جرول خزاعی کی دختر کو طلاق دے دی۔ بعد میں قربیہ سے حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے شادی کر لی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) دوسری (بیوی) کو ابوجہم نے اپنے عقد میں لے لیا۔ جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنےسے انکار کردیا جو انھوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کیے تھے تو اللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی۔ ’’اور اگر تمھاری کافر بیویوں کے حق مہر سے تمھیں کچھ نہ ملے تو سزا کے طور پر تم معاوضہ خود ہی وصول کر لو۔‘‘ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان، کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے آجاتی۔ اب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر (کفار کےہاں) چلی جائے اس کے اخراجات ان کفار کی عورتوں کے حق مہر سے ادا کر دیے جائیں جو ہجرت کرکے آئی ہی (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے)۔ اور ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی مسلمان مہاجرہ عورت ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہو۔ اور ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ حضرت ابو بصیر بن اسید ثقفی ؓ جب مسلمان مہاجر کی حیثیت سے معاہدے کی مدت کے دوران میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے ایک تحریر کے ذریعے سے نبی ﷺ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر ایک معین مدت تک کے لیے کفار سے صلح کرنا جائز ہے اور ان کے درمیان جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لینا چاہیے، ان پر گواہی بھی تحریر کر لی جائے تاکہ فریقین میں سے جو صلح توڑنا چاہے اس کے خلاف گواہی دی جا سکے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابو بصیر ؓ ساحل سمندر پر عیص نامی مقام پر ٹھہرے اور ابو جندل ؓ بھی بھاگ کر وہاں آ گئے۔ اس طرح وہاں ستر سوار جمع ہو گئے قریش کا جو تجارتی قافلہ آتا اسے لوٹ لیتے۔ آخر کار قریش نے تنگ آ کر معاہدے کی آخری شرط ختم کر دی اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابو بصیر ؓ کی کاروائیوں کو بند کیا جائے۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خط حضرت ابو بصیر ؓ کے نام روانہ فرمایا۔ انہیں جب خط ملا تو وہ حالت نزع میں تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کا گرامی نامہ ہاتھ میں پکڑا اور اسے پڑھتے پڑھتے اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کر دی ۔۔۔ رضي اللہ عنه ۔۔۔(عمدةالقاري:647/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقیل نے زہری سے بیان کیا‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کا (جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجر ت کرکے مدینہ آتی تھیں) امتحان لیتے تھے (زہری نے) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کر دیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہوجو (اب مسلمان ہوکر) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر ؓ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ ؓ نے شادی کرلی تھی (کیونکہ اس وقت معاویہ مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری بیوی سے ابو جہم نے شاد ی کر لی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور رتمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے یہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو“ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کرکے (مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آگئی ہو) پس اللہ نے اب یہ حکم دیاکہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہوکر (کفار کے یہاں) چلی جائے اسکے (مہر و نفقہ کے) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کردئے جائیں جو ہجرت کر کے آگئی ہیں (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے) اگر چہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی ؓ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم ﷺ کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے (ابو بصیر ؓ کی واپسی کا) مطالبہ آپ سے کیا تھا۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : یہ واقعہ 6 ھ کا ہے آنحضرت ﷺ پیر کے دن ذی قعدہ کے آخر میں مدینہ سے عمرہ کا ارادہ کر کے نکلے۔ آپ ﷺ کے ساتھ سات سو مسلمان تھے اور ستر اونٹ قربانی کے‘ ہر دس آدمی میں ایک اونٹ ۔ ایک روایت میں آپ کے ساتھیوں کی تعداد چودہ سو بتلائی ہے۔ آپ نے بسر بن سفیان کو قریش کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا‘ اس نے واپس آکر بتلایا کہ قریش کے لوگ آپ کے آنے کی خبرسن کر ذی طویٰ میں آگئے ہیں اور خالد بن ولید ؓ ان کے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم نامی جگہ میں آٹھہرے ہیں‘ یہ جگہ مکہ سے دومیل پر ہے۔ اس روایت میں واقعہ حدیبیہ کی تفصیلات موجود ہیں۔ روایت میں قصویٰ اونٹنی کا ذکر ہے‘ اس پر آنحضرت ﷺ سواری کرتے تھے‘ یہ تمام اونٹوں میں آگے رہتی‘ آپ نے اس پر سوار ہو کر ہجرت کی تھی۔ روایت میں تہامہ کا ذکر ہے‘ یہ مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں کو کہتے ہیں۔ تہم گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔ یہ علاقہ بے حد گرم ہے‘ اسی لئے تہامہ نام سے موسوم ہوا۔ کعب بن لوی قریش کے جداعلیٰ ہیں۔ عوذ المطا فیل کا لفظ جو روایت میں آیا ہے اس کے دو معنی ہیں ایک بچہ دار اونٹنیاں جو ابھی بچہ جنی ہوں اور کافی دودھ دے رہی ہوں۔ دوسرے انسانوں کے بال بچے۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ قریش کے لو گ ان چشموں پر زیادہ دنوں تک رہنے کے لئے اپنے اونٹ اور اونٹنیاں اور بال بچے لے کر آئے ہیں تاکہ وہ عرصہ تک آپ سے جنگ کرتے رہیں۔ عروہ بن مسعود جو قریش کے نمائندہ بن کر آپ ﷺ سے صلح کی گفتگو کرنے آئے تھے‘ یہ چھ سال بعد خود مسلمان ہوکر مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنی قوم میں گئے تھے۔ آج یہ آنحضرت ﷺ کو سمجھنا سمجھنانے کاخیال لے کر آئے تھے حضرت ابو بکر ؓ نے جب اس کا یہ جملہ سنا کہ یہ متفرق قبائل کے لوگ جو مسلمان ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہیں‘ در صورت شکست آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ جواباً ازراہ غصہ کہا تھا کہ تو واپس جا کر اپنے معبود لات کی شرمگاہ چوس لے‘ یہ خیال ہرگزنہ کرنا کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کوچھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ ؓجس کو عروہ نے غدار قرار دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ عروہ کے بھتیجے تھے‘ ایک ہونے والی جنگ میں جو مغیرہ کی قوم سے متعلق تھی‘ عروہ نے بچ بچاؤ کرادیا تھا۔ اس احسان کو جتلا رہے تھے۔ بنو کنانہ میں سے آنے والے کا نام حلیس بن علقمہ حارثی تھا۔ وہ حبشیوں کا سردار تھا‘ آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل صحیح ثابت ہواکہ اس نے قربانی کے جانور کو دیکھ کر‘ مسلمانوں سے لبیک کے نعرے سن کر بڑے اچھے لفظوں میں مسلمانوں کا ذکرخیرکیا اور مسلمانوں کے حق میں سفارش کی۔ صلح حدیبیہ کا متن لکھنے والے حضرت علی کرم اللہ وجهه تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri: Urwa (RA) said, "Aisha told me that Allah's Apostle (ﷺ) used to examine the women emigrants. We have been told also that when Allah revealed the order that the Muslims should return to the pagans what they had spent on their wives who emigrated (after embracing Islam) and that the Mushriks should not. keep unbelieving women as their wives, 'Umar divorced two of his wives, Qariba, the daughter of Abu Urhaiya and the daughter of Jarwal Al-Khuza'i. Later on Mu'awlya married Qariba and Abu Jahm married the other." When the pagans refused to pay what the Muslims had spent on their wives, Allah revealed: "And if any of your wives have gone from you to the unbelievers and you have an accession (By the coming over of a woman from the other side) (Then pay to those whose wives have gone) The equivalent of what they had spent (On their Mahr)." (60.11) So, Allah ordered that the Muslim whose wife, has gone, should be given, as a compensation of the Mahr he had given to his wife, from the Mahr of the wives of the pagans who had emigrated deserting their husbands. We do not know any of the women emigrants who deserted Islam after embracing it. We have also been told that Abu Basir bin Asid Ath-Thaqafi came to the Prophet (ﷺ) as a Muslim emigrant during the truce. Al-Akhnas bin Shariq wrote to the Prophet (ﷺ) requesting him to return Abu Basir.