Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: Conditions in loans)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر اور عطاء بن ابی رباح ؓ نے کہا کہ اگر قرض ( کی ادئیگی ) کے لئے کوئی مدت مقرر کی جائے تو یہ جائز ہے ۔
2734.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک اسرائیلی کا ذکر کیا جس نے کسی سے ایک ہزار بطور قرض طلب کیے تو اس نے ایک معین مدت تک کے لیے اسے قرض دیا۔ اس کے بعد مکمل حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ قرض دیتے وقت ادائیگی کے لیے مدت مقرر نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مدت طے کر لینا جائز ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے کتاب البیوع میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب: إذ أقرضه إلی أجل مسمی أو أجله في البيع)’’جب کسی کو ایک مقرر مدت تک قرض دے یا خریدوفروخت میں ایک مدت تک ادھار کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستقراض، قبل حدیث:2404) وہاں بھی آپ نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عطاء کے آثار پیش کیے تھے، نیز مذکورہ حدیث کا بھی حوالہ دیا تھا۔ بہرحال وہاں پر قرض اور ادھار میں مساوات بیان کر کے اپنے رجحان کی طرف اشارہ کیا تھا۔ (2) احادیث کی رو سے امام بخاری ؒ کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ قرض دینے والا ایسی جائز شرائط لگا سکتا ہے اور ادا کرنے والے پر لازم ہو گا کہ وہ شرائط کے مطابق وقت مقررہ پر قرض ادا کر دے، بنی اسرائیل کے دو اشخاص کا واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2634
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2734
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2734
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2734
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے، (المصنف لابن ابی شیبۃ:4/523) نیز حضرت عطاء کا اثر مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان ہوا ہے۔ (فتح الباری:5/84،83)
اور عبداللہ بن عمر اور عطاء بن ابی رباح ؓ نے کہا کہ اگر قرض ( کی ادئیگی ) کے لئے کوئی مدت مقرر کی جائے تو یہ جائز ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک اسرائیلی کا ذکر کیا جس نے کسی سے ایک ہزار بطور قرض طلب کیے تو اس نے ایک معین مدت تک کے لیے اسے قرض دیا۔ اس کے بعد مکمل حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ قرض دیتے وقت ادائیگی کے لیے مدت مقرر نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مدت طے کر لینا جائز ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے کتاب البیوع میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب: إذ أقرضه إلی أجل مسمی أو أجله في البيع)’’جب کسی کو ایک مقرر مدت تک قرض دے یا خریدوفروخت میں ایک مدت تک ادھار کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستقراض، قبل حدیث:2404) وہاں بھی آپ نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عطاء کے آثار پیش کیے تھے، نیز مذکورہ حدیث کا بھی حوالہ دیا تھا۔ بہرحال وہاں پر قرض اور ادھار میں مساوات بیان کر کے اپنے رجحان کی طرف اشارہ کیا تھا۔ (2) احادیث کی رو سے امام بخاری ؒ کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ قرض دینے والا ایسی جائز شرائط لگا سکتا ہے اور ادا کرنے والے پر لازم ہو گا کہ وہ شرائط کے مطابق وقت مقررہ پر قرض ادا کر دے، بنی اسرائیل کے دو اشخاص کا واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عطاء نے کہا: اگر قرض میں مدت مقرر کر لے تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے بیان کیا‘ ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جنہوں نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا اور اس نے ایک مقررہ مدت تک کے لئے دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قرض دینے والا ایسی جائز شرطیں لگا سکتا ہے اور ادا کرنے والے پر لازم ہوگا کہ ان ہی شرائط کے تحت وقت مقررہ پر وہ قرض ادا کردے۔ بنی اسرائیل کے ان دو شخصوں کا ذکر پیچھے تفصیل سے گزر چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) mentioned a person who asked an Israeli man to lend him one-thousand Dinars, and the Israeli lent him the sum for a certain fixed period.