باب : مکاتب کا بیان اور جو شرطیں اس کی کتاب اللہ کے مخالف ہیں‘ ان کا جائز نہ ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: Al-Mukatab conditions which contradict Allah's Laws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مکاتب وہ لونڈی یا غلام جو اپنی آزادی کے لئے شرائط مقررہ کے ساتھ اپنے آقا سے تحریر ی معاہدہ کر لے۔ ترجمہ: اور جابر بن عبد اللہ ؓ نے مکاتب کے بارے میں کہا کہ ان کی ( یعنی مکاتب اور اس کے مالک کی ) جو شرطیں ہوں وہ معتبر ہوں گی اور ابن عمر یا عمرؓ نے ( راوی کو شبہ ہے ) کہا کہ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے مخالف ہو وہ باطل ہے خواہ ایسی سو شرطیں بھی لگائی جائیں ۔ ابو عبد اللہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عمراور ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں سے یہ قول مروی ہے ۔
2735.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔‘‘
تشریح:
(1) اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا: (ما يجوز من شروط المكاتب، ومن اشترط شرطا ليس في كتاب الله) ’’مکاتب کے لیے کون کون سی شرائط جائز ہیں اور جو شخص ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے‘‘ (صحیح البخاري،المکاتب،باب:2) اس مقام پر آپ اس کی تفسیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرائط جو کتاب اللہ کے مخالف ہوں ناقابل اعتبار ہیں۔ اور کتاب اللہ سے مراد اس کا حکم ہے جو کبھی نص سے ثابت ہوتا ہے اور کبھی اس سے استنباط کیا جاتا ہے۔ جو حکم اس طرح کا نہ ہو وہ کتاب اللہ کے مخالف ہے، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے آقا آزادی کے بعد اس کی ولا اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور اس شرط کے ساتھ وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق اسے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف تھی اس بنا پر اسے باطل قرار دیا گیا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غلط شرط لگاتا ہے تو وہ شرعاً باطل ہے۔ قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2635
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2735
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2735
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2735
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
مکاتب وہ لونڈی یا غلام جو اپنی آزادی کے لئے شرائط مقررہ کے ساتھ اپنے آقا سے تحریر ی معاہدہ کر لے۔ ترجمہ: اور جابر بن عبد اللہ ؓ نے مکاتب کے بارے میں کہا کہ ان کی ( یعنی مکاتب اور اس کے مالک کی ) جو شرطیں ہوں وہ معتبر ہوں گی اور ابن عمر یا عمرؓ نے ( راوی کو شبہ ہے ) کہا کہ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے مخالف ہو وہ باطل ہے خواہ ایسی سو شرطیں بھی لگائی جائیں ۔ ابو عبد اللہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عمراور ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں سے یہ قول مروی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور ان سے بدل کتابت کے متعلق تعاون کا سوال کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکان کو بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں۔ لیکن ولا میرے لیے ہو گی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید کر آزاد کردو۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں؟ آگاہ رہو! جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں، وہ (شرط) قابل اعتبار ہی نہیں اگرچہ ایسی سو شرطیں لگائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا: (ما يجوز من شروط المكاتب، ومن اشترط شرطا ليس في كتاب الله) ’’مکاتب کے لیے کون کون سی شرائط جائز ہیں اور جو شخص ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے‘‘ (صحیح البخاري،المکاتب،باب:2) اس مقام پر آپ اس کی تفسیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرائط جو کتاب اللہ کے مخالف ہوں ناقابل اعتبار ہیں۔ اور کتاب اللہ سے مراد اس کا حکم ہے جو کبھی نص سے ثابت ہوتا ہے اور کبھی اس سے استنباط کیا جاتا ہے۔ جو حکم اس طرح کا نہ ہو وہ کتاب اللہ کے مخالف ہے، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے آقا آزادی کے بعد اس کی ولا اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور اس شرط کے ساتھ وہ حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق اسے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف تھی اس بنا پر اسے باطل قرار دیا گیا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غلط شرط لگاتا ہے تو وہ شرعاً باطل ہے۔ قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے مکاتب کے متعلق فرمایا کہ ان کے اور آقاؤں کے درمیان جو شرائط طے ہوں وہ قابل اعتبار ہیں۔ حضرت ابن عمریا حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے مخالف ہو وہ باطل ہے اگرچہ وہ سو شرطیں ہوں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ یحییٰ بن سعید انصاری سے‘ ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بریرہ ؓ اپنے مکاتبت کے سلسلے میں ان سے مدد مانگنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہارے مالکوں کو (پوری قیمت) دے دوں اور تمھاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوگی۔ پھرجب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ سے میں نے اس کا ذکرکیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا انہیں تو خرید لے اور آزاد کر دے۔ ولاءتو بہر حال اسی کے ساتھ قائم ہوگی جو آزاد کردے۔ پھر رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے‘ جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو خواہ ایسی سو شرطیں لگالے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓکے آقا آزادی کے بعد ان کی ولاءکو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے اور اسی شرط پر وہ بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کی پیشکش کے مطابق آزاد کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ شرط باطل تھی کیونکہ ایسے لونڈی غلاموں کی ولاءان کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو اپنا روپیہ خرچ کرکے ان کے آزاد کرانے والے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص کوئی غلط شرط لگائے تو لگاتارہے شرعاً وہ شرط باطل ہوگی اور قانون اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Amra (RA): Aisha said that Buraira came to seek her help in the writing of her emancipation. 'Aisha (RA) said to her, "If you wish, I will pay your masters (your price) and the wala' will be for me." When Allah's Apostle (ﷺ) came, she told him about it. The Prophet (ﷺ) said to her, "Buy her (i.e. Buraira) and manumit her, for the Wala is for the one who manumits." Then Allah's Apostle (ﷺ) ascended the pulpit and said, "What about those people who stipulate conditions which are not in Allah's Laws? Whoever stipulates such conditions as are not in Allah's Laws, then those conditions are invalid even if he stipulated a hundred such conditions."