باب : اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: To leave inheritors wealthy than begging others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2742.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کی وفات اس سرزمین میں ہو جہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ عفراء کے بیٹے پر رحم فرمائے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اپنے نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، تیسرے حصے کی وصیت درست ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ ہے، کیونکہ تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تویہ اس سے بہتر ہے کہ انھیں تنگ دست محتاج چھوڑوجو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کروگے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر ا پنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی صدقہ ہے۔ یقیناً تیری عمر دراز ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمھیں بلند مرتبہ عطا فرمائے گا کہ کچھ لوگ تمہاری ذات سے فائدہ اٹھائیں گے جبکہ کچھ لوگوں کو تمہاری وجہ سے نقصان پہنچے گا۔‘‘ اس وقت حضرت سعد ؓ کی صرف ایک بیٹی تھی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حدیث کے الفاظ ہی کو عنوان قرار دیا ہے، شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو یا بالکل نہ ہو اس شخص کا وصیت کرنا اچھا نہیں۔ (فتح الباري:445/5) بعض لوگ دینی طور پر بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے وارث موجود ہوں، ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کی جا سکتی ہے، نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی تہائی سے زائد وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا مذکورہ واقعہ فتح مکہ کا ہے یا حجۃ الوداع کا، اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔ ممکن ہے دونوں مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ پہلی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہوا جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع میں بیمار ہوئے جبکہ ان کے ہاں صرف ایک بیٹی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک زندہ رکھا۔ ان کے چار بیٹے اور بارہ بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے ایران فتح کیا۔ کوفہ کے گورنر بنے۔ غنیمتوں سے مسلمانوں کو مالامال کیا اور کفار و مشرکین کو ان کے جنگ و قتال سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا تھا چنانچہ کوفہ کے ایک شکایت کرنے والے کو آپ کی بددعا سے بہت نقصان ہوا۔ (فتح الباري:446/5 447)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2642
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2742
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2742
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2742
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کی وفات اس سرزمین میں ہو جہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ عفراء کے بیٹے پر رحم فرمائے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اپنے نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، تیسرے حصے کی وصیت درست ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ ہے، کیونکہ تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تویہ اس سے بہتر ہے کہ انھیں تنگ دست محتاج چھوڑوجو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کروگے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر ا پنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی صدقہ ہے۔ یقیناً تیری عمر دراز ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمھیں بلند مرتبہ عطا فرمائے گا کہ کچھ لوگ تمہاری ذات سے فائدہ اٹھائیں گے جبکہ کچھ لوگوں کو تمہاری وجہ سے نقصان پہنچے گا۔‘‘ اس وقت حضرت سعد ؓ کی صرف ایک بیٹی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے حدیث کے الفاظ ہی کو عنوان قرار دیا ہے، شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو یا بالکل نہ ہو اس شخص کا وصیت کرنا اچھا نہیں۔ (فتح الباري:445/5) بعض لوگ دینی طور پر بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے وارث موجود ہوں، ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کی جا سکتی ہے، نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی تہائی سے زائد وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا مذکورہ واقعہ فتح مکہ کا ہے یا حجۃ الوداع کا، اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔ ممکن ہے دونوں مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ پہلی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہوا جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع میں بیمار ہوئے جبکہ ان کے ہاں صرف ایک بیٹی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک زندہ رکھا۔ ان کے چار بیٹے اور بارہ بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے ایران فتح کیا۔ کوفہ کے گورنر بنے۔ غنیمتوں سے مسلمانوں کو مالامال کیا اور کفار و مشرکین کو ان کے جنگ و قتال سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا تھا چنانچہ کوفہ کے ایک شکایت کرنے والے کو آپ کی بددعا سے بہت نقصان ہوا۔ (فتح الباري:446/5 447)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ حضور اکرم ﷺ اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ ؓ) پررحم فرمائے۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کردوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں میں نے پوچھا پھرآدھے کی کردوں؟ آپ ﷺ نے اس پر بھی یہی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کردوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تہائی کی کرسکتے ہو اوریہ بھی بہت ہے‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لئے خرچ کروگے) تو وہ خیرات ہے‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالو گے ( وہ بھی خیرات ہے ) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفادے اور اس کے بعدتم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت حضرت سعد ؓ کی صرف ایک بیٹی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ اس بیماری میں نا امید ی کی حالت کو پہنچ چکے تھے۔ آپ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے سارے مال کے وقف کردینے کا خیال ظاہرکیا مگر آنحضرت ﷺ نے آپ کی ڈھارس بند ھائی اور آپ ﷺ کی صحت کی بشارت دی چنانچہ آپ بعد میں تقریباً پچاس سال زندہ دہے اور تاریخ اسلام میں آپ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے ( رضي اللہ عنه ) مورخین نے ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں بتلائی ہیں۔ واﷲ أعلم با لصواب
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad bin Abu Waqqas (RA): The Prophet (ﷺ) came visiting me while I was (sick) in Makkah, ('Amir the sub-narrator said, and he disliked to die in the land, whence he had already migrated). He (i.e. the Prophet) said, "May Allah bestow His Mercy on Ibn Afra (Sad bin Khaula)." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! May I will all my property (in charity)?" He said, "No." I said, "Then may I will half of it?" He said, "No". I said, "One third?" He said: "Yes, one third, yet even one third is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy than to leave them poor begging others, and whatever you spend for Allah's sake will be considered as a charitable deed even the handful of food you put in your wife's mouth. Allah may lengthen your age so that some people may benefit by you, and some others be harmed by you." At that time Sad had only one daughter.