باب : سب لوگوں میں افضل وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Striving with both, life and property)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے ( سورۃ صف میں ) فرمایا کہ ” اے ایمان والو ! کیا میں تم کو بتاؤں ایک ایسی تجارت جو تم کو نجات دلائے دکھ دینے والے عذاب سے ‘ وہ یہ کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرواللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے‘ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو‘ اگر تم نے یہ کام انجام دیئے تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو ایسے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور بہترین مکانات تم کو عطا کئے جائیں گے‘ جنات عدن میں یہ بڑی بھاری کامیابی ہے ۔ “
2787.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال۔ ۔ ۔ اور یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کون کرتا ہے۔ ۔ ۔ اس روزہ دار کی طرح ہے جو رات بھر قیام میں مصروف رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ اسے وفات دیتے ہیں جنت میں داخل کردےگا یااجروغنیمت سمیت اسے سلامتی سے واپس کرے گا۔‘‘
تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ نے مجاہد کے لیے ضمانت دی ہے کہ اگروہ شہید ہوجائے تو اسے مرنے کے فوراً بعد جنت میں داخل کردے گا۔اور اگر وہ اللہ کی راہ میں کام نہ آئے بلکہ وہ سلامتی کے ساتھ واپس آجائے تو اللہ تعالیٰ ثواب اور غنیمت عطا کرے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ سلامتی کی صورت میں اسے کچھ حاصل نہ ہو،بلکہ اسے غنیمت اور اجر دونوں ملیں گے یا کم از ایک توضرور ملےگا۔ 2۔اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیت کاحال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے،اگر وہ مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا اگرمخلص نہیں بلکہ دنیا کے مال ومتاع یا اپنی شہرت کے لیے میدان جنگ میں اترا ہے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے اور نہ وہ اللہ کے ہاں کسی قسم کے اجر کا ہی حق دار ہے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ کا کوئی لمحہ بھی اجروثواب سے خالی نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٢٠﴾ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) ’’مجاہدین اللہ کی راہ میں پیاس،تکان اور بھوک کی جو بھی مصیبت برداشت کرتے ہیں یا کوئی ایسا مقام طے کرتے ہیں جو کافروں کو ناگوار ہویا دشمن پر ہو کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،نیز یہ مجاہدین جو بھی تھوڑا یا زیادہ خرچ کرتے ہیں یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو یہ چیزیں ان کے حق میں لکھ دی جاتی تاکہ اللہ انھیں ان کے اعمال کا بہترصلہ دے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (التوبة:9/:120۔121) یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح،اس کے اعمال نامے میں لکھ دیاجاتا ہے،خواہ اس کا یہ فعل اختیاری ہو یا غیر اختیاری،ان تمام کاموں کا اللہ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔
اور اللہ نے ( سورۃ صف میں ) فرمایا کہ ” اے ایمان والو ! کیا میں تم کو بتاؤں ایک ایسی تجارت جو تم کو نجات دلائے دکھ دینے والے عذاب سے ‘ وہ یہ کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرواللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے‘ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو‘ اگر تم نے یہ کام انجام دیئے تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو ایسے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور بہترین مکانات تم کو عطا کئے جائیں گے‘ جنات عدن میں یہ بڑی بھاری کامیابی ہے ۔ “
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال۔ ۔ ۔ اور یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کون کرتا ہے۔ ۔ ۔ اس روزہ دار کی طرح ہے جو رات بھر قیام میں مصروف رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ اسے وفات دیتے ہیں جنت میں داخل کردےگا یااجروغنیمت سمیت اسے سلامتی سے واپس کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اللہ تعالیٰ نے مجاہد کے لیے ضمانت دی ہے کہ اگروہ شہید ہوجائے تو اسے مرنے کے فوراً بعد جنت میں داخل کردے گا۔اور اگر وہ اللہ کی راہ میں کام نہ آئے بلکہ وہ سلامتی کے ساتھ واپس آجائے تو اللہ تعالیٰ ثواب اور غنیمت عطا کرے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ سلامتی کی صورت میں اسے کچھ حاصل نہ ہو،بلکہ اسے غنیمت اور اجر دونوں ملیں گے یا کم از ایک توضرور ملےگا۔ 2۔اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیت کاحال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے،اگر وہ مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا اگرمخلص نہیں بلکہ دنیا کے مال ومتاع یا اپنی شہرت کے لیے میدان جنگ میں اترا ہے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے اور نہ وہ اللہ کے ہاں کسی قسم کے اجر کا ہی حق دار ہے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ کا کوئی لمحہ بھی اجروثواب سے خالی نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٢٠﴾ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) ’’مجاہدین اللہ کی راہ میں پیاس،تکان اور بھوک کی جو بھی مصیبت برداشت کرتے ہیں یا کوئی ایسا مقام طے کرتے ہیں جو کافروں کو ناگوار ہویا دشمن پر ہو کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،نیز یہ مجاہدین جو بھی تھوڑا یا زیادہ خرچ کرتے ہیں یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو یہ چیزیں ان کے حق میں لکھ دی جاتی تاکہ اللہ انھیں ان کے اعمال کا بہترصلہ دے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (التوبة:9/:120۔121) یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح،اس کے اعمال نامے میں لکھ دیاجاتا ہے،خواہ اس کا یہ فعل اختیاری ہو یا غیر اختیاری،ان تمام کاموں کا اللہ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ایمان والو!کیا میں تمھیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچالے؟تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اوراللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوروں سے جہاد گرو۔ اگر تم جان لو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اورتمھیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اسکے علاوہ سدا بہار باغات میں عمدہ گھر عطا کرے گا۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا‘ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوب جانتا ہے جو (خلوص دل کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے) اللہ کے راستے میں جہا د کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس شخص کی سی ہے جو رات میں برابر نماز پڑھتا رہے اوردن میں برابر روزے رکھتا رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کیلئے اس کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اگر اسے شہادت دے گا تو اسے بے حساب وکتاب جنت میں داخل کرے گا یا پھر زندہ و سلامت (گھر) ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی نیت کا حال خدا ہی کو خوب معلوم ہے کہ وہ مخلص ہے یا نہیں‘ اگر مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا ورنہ کوئی دنیا کے مال و جاہ اور ناموری کے لئے لڑے وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ مثال میں نماز پڑھنے سے نماز نفل اسی طرح روزہ رکھنے سے نفل روزہ مراد ہے کہ کوئی شخص دن بھر نفل روزے رکھتا ہو اور رات بھر نفل نماز پڑھتا ہو‘ مجاہد کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The example of a Mujahid in Allah's Cause-- and Allah knows better who really strives in His Cause----is like a person who fasts and prays continuously. Allah guarantees that He will admit the Mujahid in His Cause into Paradise if he is killed, otherwise He will return him to his home safely with rewards and war booty."