Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The wish for martyrdom)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2797.
حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔‘‘
تشریح:
1۔موت کی تمنا کرنامنع ہے،البتہ شہادت کی آرزو رکھنا اس نیت کے ساتھ کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور اورآخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔یہ جائز ہی نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض نہیں بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ اس میں پیچھے نہ رہتے اور نہ دوسروں کے پیچھے رہنے ہی کو جائز قراردیتے،البتہ اگردشمن حملہ کردے تو ہرمسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے جبکہ وہ جہاد کی طاقت رکھتا ہو۔3۔قبل ازیں عنوان کی غرض جہاد اور شہادت کی دعاکرناہے جبکہ اس عنوان سے مقصود شہادت کی تمنا کرناہے جو موت کی آرزو نہیں بلکہ شہادت پر درجات کے حصول کی خواہش ہے۔
حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔موت کی تمنا کرنامنع ہے،البتہ شہادت کی آرزو رکھنا اس نیت کے ساتھ کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور اورآخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔یہ جائز ہی نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض نہیں بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ اس میں پیچھے نہ رہتے اور نہ دوسروں کے پیچھے رہنے ہی کو جائز قراردیتے،البتہ اگردشمن حملہ کردے تو ہرمسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے جبکہ وہ جہاد کی طاقت رکھتا ہو۔3۔قبل ازیں عنوان کی غرض جہاد اور شہادت کی دعاکرناہے جبکہ اس عنوان سے مقصود شہادت کی تمنا کرناہے جو موت کی آرزو نہیں بلکہ شہادت پر درجات کے حصول کی خواہش ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر د ی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فر ما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لئے نکل جاوں اور مجھے خود اتنی سواریا ں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ساتھ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ روکتا جو اللہ کے راستے میں غزوہ کے لئے جارہا ہوتا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کردیا جاؤں۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اس نیت سے کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور آخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔ یہ جائز بلکہ سنت ہے اور ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "By Him in Whose Hands my life is! Were it not for some men amongst the believers who dislike to be left behind me and whom I cannot provide with means of conveyance, I would certainly never remain behind any Sariya' (army-unit) setting out in Allah's Cause. By Him in Whose Hands my life is! I would love to be martyred in Al1ah's Cause and then get resurrected and then get martyred, and then get resurrected again and then get martyred and then get resurrected again and then get martyred.