باب : اگر کسی بچے کو خدمت کے لیے جہاد میں ساتھ لے جائے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Whoever sets off for a holy battle accompanied by a boy-servant)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2893.
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: ’’اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: ’’اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔‘‘ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان سے خلوت کی۔ اس کے بعد آپ نے خاص حلوہ سا تیار کرکے ایک چھوٹے سے دسترخوان پر رکھوایا اور مجھے فرمایا: ’’اپنے آس پاس کےلوگوں کو دعوت دے دو۔‘‘ اور یہ حضرت صفیہ ؓکے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف چلے۔ حضرت انس ؓنے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صفیہ ؓکی وجہ سے اپنے پیچھے اپنی چادر سے پردہ کیے ہوتے، پھر آپ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا کھڑا رکتے اورحضرت صفیہ ؓ آپ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ ہم چلتے رہے حتیٰ کہ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا: ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ پھر مدینہ طیبہ کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا: ’’اے اللہ!میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیانی خطے کوحرم قرار دیتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔ اے اللہ! مدینہ کے لوگوں کو ان کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما۔‘‘
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہادی سفر اور غزوات میں بچوں کو خدمت کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے۔ امام بخاری ؒ کا یہی مقصد ہے،نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا آغاز غزوہ خیبر سے کیا۔ اس طرح انھوں نے صرف چار برس تک آپ کی خدمت کی،حالانکہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کی نو یا دس برس خدمت کی تھی۔دراصل آپ نے عمومی خدمت کا آغاز تو مدینہ طیبہ میں آتے ہی کردیا تھا، البتہ غزوہ خیبر کے وقت خصوصی خدمت کا اہتمام فرمایا،یعنی حضرت ابوطلحہ ؓنے اس جہادی سفر میں خدمت کے لیے آپ کاتعین فرمایاتھا، عمومی خدمات تو پہلے ہی بجالاتے تھے۔ اس حدیث میں کئی ایک واقعات ہیں جن کی موقع ومحل کے مطابق تشریح ہوگی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: ’’اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: ’’اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔‘‘ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان سے خلوت کی۔ اس کے بعد آپ نے خاص حلوہ سا تیار کرکے ایک چھوٹے سے دسترخوان پر رکھوایا اور مجھے فرمایا: ’’اپنے آس پاس کےلوگوں کو دعوت دے دو۔‘‘ اور یہ حضرت صفیہ ؓکے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف چلے۔ حضرت انس ؓنے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صفیہ ؓکی وجہ سے اپنے پیچھے اپنی چادر سے پردہ کیے ہوتے، پھر آپ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا کھڑا رکتے اورحضرت صفیہ ؓ آپ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ ہم چلتے رہے حتیٰ کہ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا: ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ پھر مدینہ طیبہ کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا: ’’اے اللہ!میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیانی خطے کوحرم قرار دیتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔ اے اللہ! مدینہ کے لوگوں کو ان کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہادی سفر اور غزوات میں بچوں کو خدمت کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے۔ امام بخاری ؒ کا یہی مقصد ہے،نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا آغاز غزوہ خیبر سے کیا۔ اس طرح انھوں نے صرف چار برس تک آپ کی خدمت کی،حالانکہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کی نو یا دس برس خدمت کی تھی۔دراصل آپ نے عمومی خدمت کا آغاز تو مدینہ طیبہ میں آتے ہی کردیا تھا، البتہ غزوہ خیبر کے وقت خصوصی خدمت کا اہتمام فرمایا،یعنی حضرت ابوطلحہ ؓنے اس جہادی سفر میں خدمت کے لیے آپ کاتعین فرمایاتھا، عمومی خدمات تو پہلے ہی بجالاتے تھے۔ اس حدیث میں کئی ایک واقعات ہیں جن کی موقع ومحل کے مطابق تشریح ہوگی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے کہا، ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عمرو نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ابوطلحہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے بچوں میں سے کوئی بچہ میرے ساتھ کردو جو خیبر کے غزوے میں میرے کام کردیا کرے، جب کہ میں خیبر کا سفر کروں۔ ابوطلحہ اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر مجھے (انس ؓ کو) لے گئے، میں اس وقت ابھی لڑکا تھا۔ بالغ ہونے کے قریب۔ جب بھی آنحضرت ﷺ کہیں قیام فرماتے تو میں آپ ﷺ کی خدمت کرتا۔ اکثر میں سنتا کہ آپ ﷺ یہ دعا کرتے اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم، عاجزی، سستی، بخل، بزدلی، قرض داری کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے، آخر ہم خیبر پہنچے اور جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعہ پر آپ ﷺ کو فتح دی تو آپ ﷺ کے سامنے صفیہ بنت حی بن اخطب ؓ کے جمال (ظاہری و باطنی) کا ذکر کیا گیا ان کا شوہر (یہودی) لڑائی میں کام آگیا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں (اور چونکہ قبیلہ کے سردار کی لڑکی تھیں) اس لیے رسول کریم ﷺ نے (ان کا اکرام کرنے کے لیے کہا) انہیں اپنے لیے پسند فرمالیا۔ پھر آپ ﷺ انہیں ساتھ لے کر وہاں سے چلے۔ جب ہم سدالصبہاء پر پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوئیں، تو آپ ﷺ نے ان سے خلوت کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حیس (کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا ایک کھانا) تیار کراکر ایک چھوٹے سے دسترخوان پر رکھوایا اور مجھ سے فرمایا کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دعوت دے دو اور یہی آنحضرت ﷺ کا حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ نکاح کا ولیمہ تھا۔ آخر ہم مدینہ کی طرف چلے، انس ؓ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آنحضور ﷺ صفیہ ؓ کی وجہ سے اپنے پیچھے (اونٹ کے کوہان کے ارد گرد) اپنی عباءسے پردہ کئے ہوئے تھے (سواری پر جب حضرت صفیہ ؓ سوار ہوتیں) تو آپ ﷺ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنا گھٹنا کھڑا رکھتے اور حضرت صفیہ ؓ اپنا پاؤں حضور اکرم ﷺ کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہوجاتیں۔ اس طرح ہم چلتے رہے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں، اس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ معظمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اے اللہ! مدینہ کے لوگوں کو ان کی مد اور صاع میں برکت دیجیؤ!
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے غزوۂ خیبر میں حضرت انس ؓ کو خدمت کے لیے ساتھ رکھا جو ابھی نابالغ تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ اسی لڑائی میں حضرت صفیہ ؓ آپﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں جو ایک خاندانی خاتون تھیں اس رشتہ سے اہل سلام کو بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ روایت ہذا میں ایک دعائے مسنونہ بھی مذکور ہوئی ہے جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جس کا یاد کرنا اور دعاؤں میں اسے پڑھتے رہنا بہت سے امور دینی اور دنیاوی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ حضرت صفیہ ؓکے تفصیلی حالات پیچھے مذکور ہوچکے ہیں اسی حدیث سے مدینہ منورہ کا بھی مثل مکہ شریف حرم ثابت ہوا۔ حضرت انس ؓ پہلے ہی سے آپ کی خدمت میں تھے مگر سفر میں ان کا پہلا موقع تھا کہ خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ دعاء مسنونہ میں لفظ ھم اور حزن ہم معنی ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ھم وہ فکر جو واقع نہیں ہوا لیکن وقوع کا خطرہ ہے‘ حزن وہ غم و فکر جو واقع ہوچکا ہے۔ حضرت انس ؓ خدمت نبوی میں پہلے ہی تھے مگر اس موقع پر بھی ان کو ہمراہ لیا گیا ان کی مدت خدمت نو سال ہے‘ احد پہاڑ کے لیے جو آپﷺ نے فرمایا وہ حقیقت پر مبنی ہے ﴿اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾(البقرة:20)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said to Abu Talha, "Choose one of your boy servants to serve me in my expedition to Khaibar." So, Abu Talha took me letting me ride behind him while I was a boy nearing the age of puberty. I used to serve Allah's Apostle (ﷺ) when he stopped to rest. I heard him saying repeatedly, "O Allah! I seek refuge with You from distress and sorrow, from helplessness and laziness, from miserliness and cowardice, from being heavily in debt and from being overcome by men." Then we reached Khaibar; and when Allah enabled him to conquer the Fort (of Khaibar), the beauty of Safiya bint Huyai bin Akhtab was described to him. Her husband had been killed while she was a bride. So Allah's Apostle (ﷺ) selected her for himself and took her along with him till we reached a place called Sad-AsSahba,' where her menses were over and he took her for his wife. Haris (a kind of dish) was served on a small leather sheet. Then Allah's Apostle (ﷺ) told me to call those who were around me. So, that was the marriage banquet of Allah's Apostle (ﷺ) and Safiya. Then we left for Medina. I saw Allah's Apostle (ﷺ) folding a cloak round the hump of the camel so as to make a wide space for Safiya (to sit on behind him) He sat beside his camel letting his knees for Safiya to put her feet on so as to mount the camel. Then, we proceeded till we approached Medina; he looked at Uhud (mountain) and said, "This is a mountain which loves us and is loved by us." Then he looked at Madinah and said, "O Allah! I make the area between its (i.e. Medina's) two mountains a sanctuary as Abraham made Makkah a sanctuary. O Allah! Bless them (i.e. the people of Medina) in their Mudd and Sa (i.e. measures)."