کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب :سات زمینوں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: What has been said regarding the seven earths)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں ۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے اور سورہ طور میں والسقف المرفوع سے مراد آسمان ہے اور سوہ والنازعات میں جو﴾رفع سمکہا﴿ ہے سمک کے معنی بناء عمارت کے ہیں ۔ اور سورہ والذاریات میں جو حبک کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا ۔ سورہ اذا السماءانشقت میں جو لفظ اذنت ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا ، اور لفظ القت کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا ، خالی ہوگئی ۔ اور سورہ والیل میں جو لفظ طحاہا ہے اس کے معنی بچھایا ۔ اور سورہ والنازعات میں جو ساہرہ کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں ، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں ۔جن کے لیے زمین گویا ایک بھچونا ہے جو اللہ پاک نے خود بچھادیا ہے۔ جس کے بارے میں یہ ارشاد بھی ہے منہا خلقنکم وفیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تار اخري ( طٰہ: 55 ) یعنی ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا، اور اسی میں ہم تم کو لوٹادیں گے، اور قیامت کے دن قبروں سے تم کو نکال کر میدان قیامت میں حاضر کریں گے۔ نص قرآنی سے سات آسمانوں اور ان ہی کی طرح سات زمینوں کا وجود ثابت ہوا، پس جو ان کا انکار کرے وہ گویا قرآن ہی کا انکار کررہا ہے۔ اب سات آسمانوں اور سات زمینوں کی بے حد کھوج میں لگنا انسانی حدود اختیارات سے آگے تجاوز کرنا ہے۔ تو کار زمین رانکو ساختی کہ بآسماں نیز پرداختی
3195.
حضرت ابو سلمہ ؓبن عبدالرحمان سے روایت ہے، ان کا دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک قطعہ زمین کے متعلق جھگڑا تھا وہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں سارا واقعہ بیان کیا۔ ام المومنین ؓ نے فرمایا: زمین (کے جھگڑے) سے بچتے رہوکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ظلم کے طورپر ایک بالشت زمین پر ناجائز قبضہ کیا تو سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3073
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3195
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3195
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3195
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سات زمینیں ثابت کرنے کے لیے پہلی آیت کریمہ پیش کی ہے باقی آیات اس کی تائید میں ہیں پہلی آیت میں ہے۔"اللہ نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے انھی (آسمانوں )کے مانند "اس سے سات زمینوں کا ثبوت ملتا ہے ہمارے نزدیک اس آیت کے دو مفہوم ہیں۔(ا)اس سے ہماری اس زمین ہی کے سات طبقات یا سات پرت مراد ہیں جنھیں طبقات الارض کہا جاتا ہے اور ان میں سے ہر طبقہ اوپر والے طبقے کے مقابلے میں ارض ہے۔(ب)عین ممکن ہے کہ ہماری زمین جیسی چھ اور زمینیں کائنات میں موجود ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو۔ انسان آج تک کائنات کی وسعت کا انداز ہ نہیں لگا سکا اور نہ ائندہ کبھی لگا سکے گا۔ ہمارے رجحا ن کے مطابق پہلا مفہوم زیادہ قرین قیاس ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً اسی مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے چند ایک احادیث پیش کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں ۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے اور سورہ طور میں والسقف المرفوع سے مراد آسمان ہے اور سوہ والنازعات میں جو﴾رفع سمکہا﴿ ہے سمک کے معنی بناء عمارت کے ہیں ۔ اور سورہ والذاریات میں جو حبک کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا ۔ سورہ اذا السماءانشقت میں جو لفظ اذنت ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا ، اور لفظ القت کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا ، خالی ہوگئی ۔ اور سورہ والیل میں جو لفظ طحاہا ہے اس کے معنی بچھایا ۔ اور سورہ والنازعات میں جو ساہرہ کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں ، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں ۔جن کے لیے زمین گویا ایک بھچونا ہے جو اللہ پاک نے خود بچھادیا ہے۔ جس کے بارے میں یہ ارشاد بھی ہے منہا خلقنکم وفیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تار اخري ( طٰہ: 55 ) یعنی ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا، اور اسی میں ہم تم کو لوٹادیں گے، اور قیامت کے دن قبروں سے تم کو نکال کر میدان قیامت میں حاضر کریں گے۔ نص قرآنی سے سات آسمانوں اور ان ہی کی طرح سات زمینوں کا وجود ثابت ہوا، پس جو ان کا انکار کرے وہ گویا قرآن ہی کا انکار کررہا ہے۔ اب سات آسمانوں اور سات زمینوں کی بے حد کھوج میں لگنا انسانی حدود اختیارات سے آگے تجاوز کرنا ہے۔ تو کار زمین رانکو ساختی کہ بآسماں نیز پرداختی
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سلمہ ؓبن عبدالرحمان سے روایت ہے، ان کا دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک قطعہ زمین کے متعلق جھگڑا تھا وہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں سارا واقعہ بیان کیا۔ ام المومنین ؓ نے فرمایا: زمین (کے جھگڑے) سے بچتے رہوکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ظلم کے طورپر ایک بالشت زمین پر ناجائز قبضہ کیا تو سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ وہ ذات ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور اسی طرح زمینیں بھی۔ احکام ان کے درمیان نازل ہوتے ہیں تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیزپر خوب قادر ہے۔ اوریقیناً اس نےعلم سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ بلند چھت کی قسم!"سے مراد آسمان ہے۔ سَمْكَهَا سے مراد آسمان کی عمارت ہے الْحُبُكِ اس سے مراد آسمانوں کا ہموار اور خوبصورت ہوناہے وَأَذِنَتْ اس سے مراد اللہ کے احکام سن لینا اور مان لینا ہے۔ وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ اس کے معنی یہ ہیں کہ زمین میں جتنے مردے تھے انھیں باہر نکال دیا اورخود خالی ہوگئی۔ طَحٰهَااس کے معنی ہیں: بچھایا ہے بِالسَّاهِرَةِ کے معنی روئے زمین کے ہیں جہاں جاندار رہتے، سوتے اور جاگتے ہیں۔حدیث نمبر۔ 3195۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بن عبدالرحمان سے روایت ہے، ان کا دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک قطعہ زمین کے متعلق جھگڑا تھا وہ حضرت عائشہ ؓعنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں سارا واقعہ بیان کیا۔ ام المومنین ؓ نے فرمایا: زمین(کے جھگڑے) سے بچتے رہوکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ظلم کے طورپر ایک بالشت زمین پر ناجائز قبضہ کیا تو سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں علی بن مبارک نے کہا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے ان کا ایک دوسرے صاحب سے ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا۔ وہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے (جواب میں) فرمایا، ابوسلمہ! کسی کی زمین (کے ناحق لینے) سے بچو، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر ایک بالشت کے برابر بھی کسی نے (زمین کے بارے میں) ظلم کیا تو (قیامت کے دن) ساتھ زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Ibrahim bin Al-Harith (RA): from Abu Salama bin 'Abdur-Rahman who had a dispute with some people on a piece of land, and so he went to ' Aisha (RA) and told her about it. She said, "O Abu Salama, avoid the land, for Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Any person who takes even a span of land unjustly, his neck shall be encircled with it down seven earths.' "