کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا ( جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند ) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر ( زور سے ) آمین کہتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: If anyone says Amin [during the Salat (prayer) at the end of the recitation of Surat Al-Fatiha])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ( با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔تشریح:حضرت امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین بولنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے‘امت میں سواد اعظم کا یہی معمول ہے یہاں تک کہ مسالک اربعہ میں سےتینوں مسالک شافعی مالکی حنبلی سب آمین بالجھرکے قائل اور عامل ہیں مگر بہت سے حنفی حضرات نہ صرف اس سنت سے نفرت کرتے ہیں اور اس سنت پر عمل کرنے والوں کو بنگاء حقارت دیکھتے ہیں بلکہ بعض جگہ اپنی مساجدمیں ایسے عاملین بالسنہ کونماز ادا کرنے سے روکتے ہیں جو بہت ہی زیادہ افسوس ناک حرکت ہے بہت سے مصنف مزاج حنفی اکابر علماء نے اس کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے اور اس کا عاملین کو ثواب سنت کا حقدار بتایا ہے کاش! جملہ برادران ایسے امور مسنونہ پر جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق و اتخاد ملت پیدا کریں اور امت کو انتشار سے نکالیں آمین بالجھر کا مسنون ہونا اور دلائل مخالفین کا جواب پیچھے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے یہاں حضرت امام بخاری اس حدیث کو اس لئے لائے کہ فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام کرنا ثابت کیا جائے۔
3228.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. کہو کیونکہ جس کا کلام فرشتوں کے کلام سے ہم آہنگ ہوجائے، اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ امام کی اتباع کا تقاضا ہے کہ مذکورہ ذکر امام کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا کہ آمین امام کے ساتھ کہی جاتی ہے۔ نماز میں امام کی متابعت کی جاتی ہے، مخالفت اور مسابقت سخت منع ہے۔ امام سے موافقت صرف دو امور میں ہے:ایک آمین کہنے میں اور دوسرے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں۔ اس موافقت کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مقصد فرشتوں کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کرنا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3106
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3228
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3228
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3228
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں بآواز بلند آمین کہنے کی فضیلت آئی ہے،چنانچہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔اس طرح جب د ونوں کی آمین ہم آہنگ ہوجائے تو بندے کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔"(صحیح البخاری الاذان حدیث 781)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر آمین کی فضیلت کا عنوان قائم کیا ہے۔(صحیح البخاری الاذان باب 112)اس کے متعلق آپ نے دومزید عنوان قائم کیے ہیں:ایک امام کا بآواز بلند آمین کہنا اور دوسرا مقتدی کا بآواز بلند آمین کہنا۔یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام ثابت کیا ہے جیسا کہ سلسلہ احادیث سے واضح ہے لیکن یہ نمایاں عنوان صرف آمین بالجہر کی اہمیت بتانے کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے:"یہودیوں کو سب سے زیادہ غصہ تمہارے آمین کہنے سے آتا ہے۔"(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 856)ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم کثرت سے آمین کہا کرو۔"(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 857)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عنوان بندی کے متعلق عادت ہے کہ سلسلہ احادیث میں اگر کوئی حدیث ایسی ہو جس سے عنوان کے علاوہ کوئی دوسرا اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہوتو اس پر ایک اضافی عنوان قائم کردیتے ہیں۔اس بنا پر علامہ عینی کا اس عنوان کو غیر متعلق قراردینا محل نظر ہے۔واللہ اعلم۔
اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ( با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔تشریح:حضرت امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین بولنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے‘امت میں سواد اعظم کا یہی معمول ہے یہاں تک کہ مسالک اربعہ میں سےتینوں مسالک شافعی مالکی حنبلی سب آمین بالجھرکے قائل اور عامل ہیں مگر بہت سے حنفی حضرات نہ صرف اس سنت سے نفرت کرتے ہیں اور اس سنت پر عمل کرنے والوں کو بنگاء حقارت دیکھتے ہیں بلکہ بعض جگہ اپنی مساجدمیں ایسے عاملین بالسنہ کونماز ادا کرنے سے روکتے ہیں جو بہت ہی زیادہ افسوس ناک حرکت ہے بہت سے مصنف مزاج حنفی اکابر علماء نے اس کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے اور اس کا عاملین کو ثواب سنت کا حقدار بتایا ہے کاش! جملہ برادران ایسے امور مسنونہ پر جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق و اتخاد ملت پیدا کریں اور امت کو انتشار سے نکالیں آمین بالجھر کا مسنون ہونا اور دلائل مخالفین کا جواب پیچھے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے یہاں حضرت امام بخاری اس حدیث کو اس لئے لائے کہ فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام کرنا ثابت کیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. کہو کیونکہ جس کا کلام فرشتوں کے کلام سے ہم آہنگ ہوجائے، اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ امام کی اتباع کا تقاضا ہے کہ مذکورہ ذکر امام کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا کہ آمین امام کے ساتھ کہی جاتی ہے۔ نماز میں امام کی متابعت کی جاتی ہے، مخالفت اور مسابقت سخت منع ہے۔ امام سے موافقت صرف دو امور میں ہے:ایک آمین کہنے میں اور دوسرے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں۔ اس موافقت کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مقصد فرشتوں کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کرنا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
۔ جب اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ آمین نکلتی ہے تو بندے کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ادریس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب (نماز میں) امام کہے کہ سمع الله لمن حمده تو تم کہا کرو اللهم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔ کیوں کہ جس کا ذکر ملائکہ کے ساتھ موافق ہو جاتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام کے ساتھ مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا پھر اللهم ربنا لك الحمد پڑھنا یا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد مقتدی کا خالی ربنا لك الحمد کہنا ہر دو امور جائز ہیں۔ تفصیل پیچھے مذکور ہوچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When the Imam, during the prayer, says, "Allah hears him who praises Him', say: 'O Allah! Our Lord! All the praises are for You/, for if the saying of anyone of you coincides with the saying of the angels, his past sins will be forgiven."