تشریح:
1۔ اس حدیث کا سبب ورودبیان ہوا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک خوش طبع عورت تھی جب وہ مدینہ طیبہ آئی تو اس نے ایک ہنس مکھ عورت کے ہاں قیام کیا۔جب حضرت عائشہ ؓ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے فرمایا:’’میرے محبوب نے سچ فرمایا تھا۔اس کے بعد انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ7/344، طبع درالمامون للتراث دمشق) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب روحوں کو پیدا کیا گیا تو وہ ایک دوسرے کے سامنے ائیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں۔ یا انھوں نے نفرت کا اظہار کیا۔ جب یہی روحیں جسموں سے مرکب ہوئیں تو ابتدائی خلقت کے اعتبار سے آپس میں محبت یا نفرت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نیک آدمی نیکوں کو پسندکرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور شریر انسان بروں سے محبت کرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ روحوں کی ابتدا جسموں سے پہلے ہے۔ 4۔کتاب الانبیاء سے اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ حضرات انبیاء ؑ اور ان کے متبعین میں مناسبت قدیمہ ہے۔ اسی قدیمی اور پرانی آشنائی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے انبیاء ؑ سے مانوس ہوتے ہیں۔