باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3388.
حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صدیقہ کائنات پر لگائے گئے بہتان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے اور وہ تباہ ہو بھی چکا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نےبتایا کہ اسی نے تو یہ(جھوٹی)بات مشہور کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کون سی بات؟ پھر اس نے تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کیا وہ واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سردی اور کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’انھیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان کے باعث انھیں بخار ہو گیا ہے۔ اس دوران میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور عرض کرنے لگیں، اگر میں قسم اٹھاؤں تو بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر خواہی کروں تو بھی نہیں سنو گے، لہٰذا میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں کی سی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ تعالیٰ ہی کی مددچاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اس نے وہ نازل فرمایا۔ جب آپ ﷺ نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی تو انھوں نے کہا: میں اس کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتی ہوں کسی اور کی تعریف نہیں کرتی۔
تشریح:
1۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسروق کا اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع ثابت ہے چنانچہ ایک روایت میں ہےکہ مجھ سے اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4691) اس لیے یہ کہنا کہ مسروق کا سماع رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں محل نظر ہے۔ 2۔ اس حدیث میں برادران یوسف کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے آپ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: مجھے دوران گفتگو میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4141) حضرت یعقوب ؑ کے سامنے جب برادران یوسف نے جعلی خون سے آلودہ قمیص پیش کی اور کہا: یوسف کو بھیڑیے نے لقمہ بنا لیا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو کچھ نہ کہا اور نہ انھیں کوئی طعن و ملامت ہی کی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی غلط حرکت کر بیٹھیں صرف اتنا ہی کہا: میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اللہ ہی سے فریاد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت میں قرآن مجید کی اٹھارہ آیات نازل فرمائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3260
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3388
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3388
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3388
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اہل مکہ نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتاؤ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کردے اور ان کی نبوت کا بھرم کھل جائے۔ انھوں نے سوچ کر ایک تاریخی قسم کا سوال اہل مکہ کو بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا پھر حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)کی اولاد مصر کیسے جا پہنچی جنھیں اہل مصر (فرعون) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے؟کفار مکہ کے سوال کے جواب میں سورہ یوسف پوری کی پوری نازل ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے نہ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ تھے اورنہ اہل مکہ کو اس کا علم ہی تھا۔اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی آگئے۔جو کفار مکہ اور بردران یوسف کے درمیان مشترک طور پر پائے جاتے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ پہلا نشان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کرثابت کردیا کہ آپ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واضح رہے کہ عنوان میں سوال کرنے والوں سے مراد اہل مکہ ہیں۔
حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صدیقہ کائنات پر لگائے گئے بہتان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے اور وہ تباہ ہو بھی چکا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نےبتایا کہ اسی نے تو یہ(جھوٹی)بات مشہور کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کون سی بات؟ پھر اس نے تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کیا وہ واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سردی اور کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’انھیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان کے باعث انھیں بخار ہو گیا ہے۔ اس دوران میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور عرض کرنے لگیں، اگر میں قسم اٹھاؤں تو بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر خواہی کروں تو بھی نہیں سنو گے، لہٰذا میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں کی سی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ تعالیٰ ہی کی مددچاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اس نے وہ نازل فرمایا۔ جب آپ ﷺ نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی تو انھوں نے کہا: میں اس کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتی ہوں کسی اور کی تعریف نہیں کرتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسروق کا اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع ثابت ہے چنانچہ ایک روایت میں ہےکہ مجھ سے اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4691) اس لیے یہ کہنا کہ مسروق کا سماع رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں محل نظر ہے۔ 2۔ اس حدیث میں برادران یوسف کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے آپ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: مجھے دوران گفتگو میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4141) حضرت یعقوب ؑ کے سامنے جب برادران یوسف نے جعلی خون سے آلودہ قمیص پیش کی اور کہا: یوسف کو بھیڑیے نے لقمہ بنا لیا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو کچھ نہ کہا اور نہ انھیں کوئی طعن و ملامت ہی کی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی غلط حرکت کر بیٹھیں صرف اتنا ہی کہا: میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اللہ ہی سے فریاد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت میں قرآن مجید کی اٹھارہ آیات نازل فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا‘ ان سے سفیان نے‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ ؓ کی والدہ ام رومان ؓ سے عائشہ ؓ کے بارے میں جو بہتان تراشاگیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ ؓ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں (مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کردے اور وہ اسے تباہ کربھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔ پھر انصاریہ عورت نے (حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا سارا) واقعہ بیان کیا‘ حضرت عائشہ ؓ نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کون سا واقعہ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی فصیل بتائی۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابو بکر ؓ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہوگیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ ؓ بے ہوش ہوکر گرپڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھاہوا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آگیا ہے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیا ن کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں کی سی ہے (کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہا نی سن کر فرمایا تھا کہ) ”جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں۔“ اس کے بعد آنحضرت ﷺ واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا۔ جب آنحضرت ﷺ نے اس کی خبر عائشہ ؓ کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لئے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے ذکر سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور شاید امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف بھی اشارہ کیا ہو جس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؒنے دوران گفتگو یوں کہا کہ مجھ کو حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف ؑ کا باپ کہہ دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Masruq (RA): I asked Um Ruman, 'Aisha (RA)'s mother about the accusation forged against 'Aisha (RA). She said, "While I was sitting with 'Aisha (RA), an Ansari woman came to us and said, 'Let Allah condemn such-and-such person.' I asked her, 'Why do you say so?' She replied, 'For he has spread the (slanderous) story.' 'Aisha (RA) said, 'What story?' The woman then told her the story. 'Aisha (RA) asked, 'Have Abu Bakr (RA) and Allah's Apostle (ﷺ) heard about it ?' She said, 'Yes.' 'Aisha (RA) fell down senseless (on hearing that), and when she came to her senses, she got fever and shaking of the body. The Prophet (ﷺ) came and asked, 'What is wrong with her?' I said, 'She has got fever because of a story which has been rumored.' 'Aisha (RA) got up and said, 'By Allah! Even if I took an oath, you would not believe me, and if I put forward an excuse, You would not excuse me. My example and your example is just like that example of Jacob and his sons. Against that which you assert, it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.' (12.18) The Prophet (ﷺ) left and then Allah revealed the Verses (concerning the matter), and on that 'Aisha (RA) said, 'Thanks to Allah (only) and not to anybody else."