باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ حجرات میں ارشاداے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حوا سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بے شک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تروہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala: "O mankind! We have created you from a male and female.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ نساءمیں ارشاد ” اور اللہ سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور ناتا توڑنے سے ڈرو ۔ بے شک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے ، اور جاہلیت کی طرح باپ دادون پر فخر کرنا منع ہے ، اس کا بیان شعوب شعب کی جمع ہے جس سے اوپر کا خاندان مراد ہے اور قبیلہ اس سے اتر کر نیچے کا یعنی اس کی شاخ مراد ہے ۔یہ طبرانی نے نکالا مجاہد سے مثلا انصار ایک شعب ہے یا قریش ایک شعب ہے یا ربیعہ یا مضر ایک شعب ہے، ہرایک میں کئی ایک قبیلے ہیں جیسے قریش مضر کا ایک قبیلہ ہے، ہندوستانی اصطلاح میں شعب پال کے معنی میں ہے اور قبیلہ گوت کے معنی میں ہے، یہاں کی اکثر نومسلم قوموں میں گوت اورپال کی بھارتی قومی تنظیم کے کچھ کچھ آثار اب تک موجود ہیں۔ شمالی ہند کے علاقوں میں گوت اور پال کی اصطلاحات بہت نمایاں ہیں۔
3489.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔‘‘ شُعُوب سے مراد بڑے قبیلے اور قبائل سے مراد بڑے قبیلوں کی شاخیں ہیں۔
تشریح:
1۔ عربوں کے ہاں خاندانی تقسیم اس طرح ہے کہ پہلے جذم، پھر شعب اس کے بعد قبیلہ اس کے بعد عمارہ وغیرہ ہے۔ جذم کی مثال عدنان، شعب کی مضر، قبیلے کی کنانہ اور عمارہ کی قریش ہے۔ ہمارے برصغیر میں جٹ ایک قوم یا ذات ہے جسے عربی میں شعب کہتے ہیں جس کی جمع شعوب ہے اور پھر اس کی آگے برادریاں اور خاندان ہیں جیسے کھوکر، چیمہ، چٹھہ یا سندھو وغیرہ۔ اسے یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ کھوکر جٹ، چیمہ جٹ، چھٹہ جٹ، اور سندھو جٹ وغیرہ۔ یہ محض پہچان اور تعارف کے لیے ہیں، مثلاً:دوشخصوں کے نام زید اور ان کی ولدیت بکر ہے تو الگ الگ قوم، قبیلہ یا برادری اور خاندان کی بنا پر ان میں امتیاز ہوسکتا ہے لیکن ہم نے یہ ظلم ڈھایا ہے کہ اس قوم اورقبیلے کے بت کو باہمی فخر اور آپس میں نفرت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کسی کی قومیت پر ناز ہے۔کوئی رنگ اورنسل پر فخر کرتا ہے اور کوئی سید، فاروقی اورصدیقی ہونے کو وجہ عزت قراردیتاہے۔ 2۔دورحاضر میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے اور ان کو بنیاد بنا کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کے بجائے عزت وشرف کا میعار صرف تقویٰ کو قراردیا ہے۔ اس بنا پر متقی آدمی اگر خاندانی اعتبار سے پست ہے لیکن اس غیر متقی خاندانی انسان سے اللہ کے ہاں زیادہ محترم ومکرم ہے۔ 3۔علمائے تفسیر نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:نسب کی حفاظت کا اہتمام امر مطلوب ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے باہمی تعارف ہوتا ہے، صلہ رحمی کا جذبہ جنم لیتا ہے، آپس میں وراثت تقسیم ہوتی ہے اور رشتے داریاں قائم ہوتی ہیں لیکن حسب ونسب اور خاندان و قبیلے کا غرور اور فخردور جاہلیت کی یاد گار ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر پاش پاش کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:’’کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر ،کسی عربی کوعجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے کیونکہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور حضرت آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا کیا گیا۔(جس کی حیثیت تم سب کے لیے برابر ہے)۔‘‘ (مسندأحمد :411/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3357
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3489
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3489
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3489
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ نساءمیں ارشاد ” اور اللہ سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور ناتا توڑنے سے ڈرو ۔ بے شک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے ، اور جاہلیت کی طرح باپ دادون پر فخر کرنا منع ہے ، اس کا بیان شعوب شعب کی جمع ہے جس سے اوپر کا خاندان مراد ہے اور قبیلہ اس سے اتر کر نیچے کا یعنی اس کی شاخ مراد ہے ۔یہ طبرانی نے نکالا مجاہد سے مثلا انصار ایک شعب ہے یا قریش ایک شعب ہے یا ربیعہ یا مضر ایک شعب ہے، ہرایک میں کئی ایک قبیلے ہیں جیسے قریش مضر کا ایک قبیلہ ہے، ہندوستانی اصطلاح میں شعب پال کے معنی میں ہے اور قبیلہ گوت کے معنی میں ہے، یہاں کی اکثر نومسلم قوموں میں گوت اورپال کی بھارتی قومی تنظیم کے کچھ کچھ آثار اب تک موجود ہیں۔ شمالی ہند کے علاقوں میں گوت اور پال کی اصطلاحات بہت نمایاں ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔‘‘ شُعُوب سے مراد بڑے قبیلے اور قبائل سے مراد بڑے قبیلوں کی شاخیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عربوں کے ہاں خاندانی تقسیم اس طرح ہے کہ پہلے جذم، پھر شعب اس کے بعد قبیلہ اس کے بعد عمارہ وغیرہ ہے۔ جذم کی مثال عدنان، شعب کی مضر، قبیلے کی کنانہ اور عمارہ کی قریش ہے۔ ہمارے برصغیر میں جٹ ایک قوم یا ذات ہے جسے عربی میں شعب کہتے ہیں جس کی جمع شعوب ہے اور پھر اس کی آگے برادریاں اور خاندان ہیں جیسے کھوکر، چیمہ، چٹھہ یا سندھو وغیرہ۔ اسے یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ کھوکر جٹ، چیمہ جٹ، چھٹہ جٹ، اور سندھو جٹ وغیرہ۔ یہ محض پہچان اور تعارف کے لیے ہیں، مثلاً:دوشخصوں کے نام زید اور ان کی ولدیت بکر ہے تو الگ الگ قوم، قبیلہ یا برادری اور خاندان کی بنا پر ان میں امتیاز ہوسکتا ہے لیکن ہم نے یہ ظلم ڈھایا ہے کہ اس قوم اورقبیلے کے بت کو باہمی فخر اور آپس میں نفرت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کسی کی قومیت پر ناز ہے۔کوئی رنگ اورنسل پر فخر کرتا ہے اور کوئی سید، فاروقی اورصدیقی ہونے کو وجہ عزت قراردیتاہے۔ 2۔دورحاضر میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے اور ان کو بنیاد بنا کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کے بجائے عزت وشرف کا میعار صرف تقویٰ کو قراردیا ہے۔ اس بنا پر متقی آدمی اگر خاندانی اعتبار سے پست ہے لیکن اس غیر متقی خاندانی انسان سے اللہ کے ہاں زیادہ محترم ومکرم ہے۔ 3۔علمائے تفسیر نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:نسب کی حفاظت کا اہتمام امر مطلوب ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے باہمی تعارف ہوتا ہے، صلہ رحمی کا جذبہ جنم لیتا ہے، آپس میں وراثت تقسیم ہوتی ہے اور رشتے داریاں قائم ہوتی ہیں لیکن حسب ونسب اور خاندان و قبیلے کا غرور اور فخردور جاہلیت کی یاد گار ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر پاش پاش کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:’’کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر ،کسی عربی کوعجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے کیونکہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور حضرت آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا کیا گیا۔(جس کی حیثیت تم سب کے لیے برابر ہے)۔‘‘ (مسندأحمد :411/5)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اے لوگو!ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ ۔ ۔ "الایۃ
نیزارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کا بھی خیال کرو۔ بلاشبہ اللہ تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ "دور جاہلیت کی طرح باپ دادا پر فخر کرنا منع ہے۔ شُعُوب کے معنی دور کا نسب اور قبائل کے معنی اس سے قریب کانسب ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن یزید الکاہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین (عثمان بن عاصم) نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے آیت ﴿وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُو﴾ کے متعلق فرمایا کہ شعوب بڑے قبیلوں کے معنی میں ہے اور قبائل سے کسی بڑے قبیلے کی شاخیں مراد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Regarding the Verse: 'And (We) made you into Shu'ub and Qabail-- (49.13) that Shu'uib means the big Qabail (i.e. nations) while the Qabail (i.e. tribes) means the branch tribes.