Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3508.
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ اور جو شخص ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی رشتہ نہ ہوتووہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی چیز کادعویٰ کرنا حرام ہے جو اس کی نہ ہو، خواہ اس کا تعلق مال ومتاع سے ہو یا علم وفضل سے یا حسب ونسب سے، چنانچہ بعض لوگ اپنی قوم کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ سادات کی طرف اپنی نسبت کرلیتے ہیں تاکہ عوام کی نگاہوں میں محترم ہوں۔ وہ اس حدیث کے مصداق ہیں۔ 2۔ اس کفر سے مراد کفرانِ نعمت ہے یا اس کامطلب یہ ہے کہ جو غیر کی نسبت کرنے کو اپنے لیے حلال سمجھتاہے وہ واقعی کافر ہے یا مذکورہ کلمہ ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر ہے۔ اگروہ توبہ کرلے تو یہ گناہ ساقط ہو جائے گا۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:جب ثابت ہوا کہ اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں تو ان کاکسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مطلب معلوم ہوتاہے۔ (فتح الباري:660/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3374
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3508
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3508
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3508
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ اور جو شخص ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی رشتہ نہ ہوتووہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی چیز کادعویٰ کرنا حرام ہے جو اس کی نہ ہو، خواہ اس کا تعلق مال ومتاع سے ہو یا علم وفضل سے یا حسب ونسب سے، چنانچہ بعض لوگ اپنی قوم کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ سادات کی طرف اپنی نسبت کرلیتے ہیں تاکہ عوام کی نگاہوں میں محترم ہوں۔ وہ اس حدیث کے مصداق ہیں۔ 2۔ اس کفر سے مراد کفرانِ نعمت ہے یا اس کامطلب یہ ہے کہ جو غیر کی نسبت کرنے کو اپنے لیے حلال سمجھتاہے وہ واقعی کافر ہے یا مذکورہ کلمہ ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر ہے۔ اگروہ توبہ کرلے تو یہ گناہ ساقط ہو جائے گا۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:جب ثابت ہوا کہ اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں تو ان کاکسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مطلب معلوم ہوتاہے۔ (فتح الباري:660/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین بن واقد نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر ؓ نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی (نسبی) تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
حدیث حاشیہ:
مراد وہ شخص ہے جو ایسا کرنا درست سمجھے یا یہ بطور تغلیظ کے ہے، یا کفر سے ناشکری مراد ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If somebody claims to be the son of any other than his real father knowingly, he but disbelieves in Allah, and if somebody claims to belong to some folk to whom he does not belong, let such a person take his place in the (Hell) Fire."