Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3510.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ قبیلہ عبد قیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں فیصلہ کن باتیں بتائیں جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انھیں بھی بتا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھیں چار چیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار کاموں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جو کچھ بھی تمھیں مال غنیمت ملے اس میں سے اللہ کے لیے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں کدو کے برتن، سبز مٹکے، لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور تارکول شدہ برتنوں (میں نبیذ بنانے) سے منع کرتا ہوں۔‘‘
تشریح:
یہ حدیث پہلے کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے۔ اس مقام پر لانے کا مقصد یہ ہے کہ عرب کے لوگ قبیلہ ربیعہ کی شاخ ہیں یا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں قبیلے حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔ وفد عبد قیس کی آمد کے وقت مضر قبیلہ مسلمان نہیں ہواتھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی اور مسلمان ہوگئے۔ الغرض آپ کی زندگی میں یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3376
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3510
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3510
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3510
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ قبیلہ عبد قیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں فیصلہ کن باتیں بتائیں جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انھیں بھی بتا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھیں چار چیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار کاموں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جو کچھ بھی تمھیں مال غنیمت ملے اس میں سے اللہ کے لیے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں کدو کے برتن، سبز مٹکے، لکڑی کرید کر بنائے ہوئے برتنوں اور تارکول شدہ برتنوں (میں نبیذ بنانے) سے منع کرتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے۔ اس مقام پر لانے کا مقصد یہ ہے کہ عرب کے لوگ قبیلہ ربیعہ کی شاخ ہیں یا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں قبیلے حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔ وفد عبد قیس کی آمد کے وقت مضر قبیلہ مسلمان نہیں ہواتھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی اور مسلمان ہوگئے۔ الغرض آپ کی زندگی میں یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہاہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا، یارسول اللہ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان (راستے میں) کفار مضر کا قبیلہ پڑتا ہے، اس لیے ہم آپ کی خدمت اقدس میں صرف حرمت کے مہینوں میں ہی حاضر ہوسکتے ہیں۔ مناسب ہوتا اگر آپ ہمیں ایسے احکام بتلا دیتے جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہتے اور جولوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انہیں بھی بتادیتے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، اول اللہ پر ایمان لانے کا، یعنی اس کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور نماز قائم کرنے کااور زکوٰۃ اداکرنے کا اور اس بات کا کہ جو کچھ بھی تمہیں مال غنیمت ملے اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کو (یعنی امام وقت کے بیت المال کو) اداکرو اور میں تمہیں دباء، حنتم، نقیر اور مزفت (کے استعمال) سے منع کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الایمان میں گزر چکی ہے، اور اسی کتاب المناقب کے شروع میں اس حدیث کا کچھ حصہ اور اس کے الفاظ کے معانی و مطالب بھی آچکے ہیں، باب کی مناسبت یہ ہے کہ آخر عرب کے لوگ یا تو ربیعہ کی شاخ ہیں یا مضر کی اور یہ دونوں حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں، بعد میں یہ جملہ قبائل مسلمان ہوگئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The delegates of 'Abd-ul-Qais came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are from the tribe of Rabi'a and the infidels of Mudar tribe stand between us and you, so that we cannot come to you except in the Sacred Months. Therefore we would like you to give us some instructions which we may follow and convey to our people staying behind us." The Prophet (ﷺ) said, "I order you to observe four things and forbid you (to do) four things: (I order you) to believe in Allah testifying that None has the right to be worshipped except Allah; to offer the prayer perfectly; to pay the Zakat; and to give one-fifth of the war booty to Allah. And I forbid you to use Ad-Dubba, Al-Hantam, An-Naqir and Al-Muzaffat." (These are names of utensils in which alcoholic drinks were served.)