Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The Kunya of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3539.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ابو لقاسم ﷺ نے فرمایا: ’’میرا نام تو رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔‘‘
تشریح:
1۔کنیت،کنایہ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد وہ لفظ ہے جو انسان کی شخصیت پر صراحت کے ساتھ دلالت نہ کرے،اس سے اشارہ ہوسکے۔عربی زبان میں کنیت وہ ہے جس سے پہلے اب یا ام ہو۔عربوں کے ہاں کنیت رکھنامشہور تھا۔بعض لوگ کنیت سے مشہور ہوتے اور ان کا نام غیر معروف ہوتا،جیسے:ابوطالب اور ابولہب وغیرہ۔اور بعض پر ان کے نام کا غلبہ ہوتا،کنیت غیر معروف ہوتی مثلاً:عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی کنیت ابوحفص غیرمعروف ہے۔بہرحال کنیت ،نام اور لقب سب علم ہیں جن سے انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی۔اس کی دووجوہات بیان کی جاتی ہیں:الف۔آپ کے فرزند ارجمند کا نام قاسم تھا، اس لیے آپ اس کنیت سے مشہور ہوئے۔ب۔آپ لوگوں میں اللہ کامال تقسیم کرتے تھے،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘ (المستدرك علی الصحیحین:660/2، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اس بنا پر آپ کو ابوالقاسم کہا جاتاتھا۔ 3۔احادیث میں اس کی ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ مخصوص تھی۔اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الادب میں بیان ہوں گے۔بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3406
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3539
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3539
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3539
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
نام کے علاوہ اپنے لیے کوئی بطور اشارہ کنایہ نام رکھے تو اس کو کنیت کہتے ہیں، اشارے کنائے کے نام ہر قوم میں ہر زبان میں رکھے جاتے ہیں۔ عرب میں ایسا دستور تھا۔ آنحضرت ﷺ کی مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ اکثر یہ کنیت اولاد کی نسبت سے رکھی جاتی ہے۔ آپ کے بھی ایک فرزند کانام قاسم بتلایا گیا ہے جس سے آپ ابوالقاسم کہلائے(ﷺ) ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ابو لقاسم ﷺ نے فرمایا: ’’میرا نام تو رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔کنیت،کنایہ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد وہ لفظ ہے جو انسان کی شخصیت پر صراحت کے ساتھ دلالت نہ کرے،اس سے اشارہ ہوسکے۔عربی زبان میں کنیت وہ ہے جس سے پہلے اب یا ام ہو۔عربوں کے ہاں کنیت رکھنامشہور تھا۔بعض لوگ کنیت سے مشہور ہوتے اور ان کا نام غیر معروف ہوتا،جیسے:ابوطالب اور ابولہب وغیرہ۔اور بعض پر ان کے نام کا غلبہ ہوتا،کنیت غیر معروف ہوتی مثلاً:عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی کنیت ابوحفص غیرمعروف ہے۔بہرحال کنیت ،نام اور لقب سب علم ہیں جن سے انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی۔اس کی دووجوہات بیان کی جاتی ہیں:الف۔آپ کے فرزند ارجمند کا نام قاسم تھا، اس لیے آپ اس کنیت سے مشہور ہوئے۔ب۔آپ لوگوں میں اللہ کامال تقسیم کرتے تھے،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘ (المستدرك علی الصحیحین:660/2، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اس بنا پر آپ کو ابوالقاسم کہا جاتاتھا۔ 3۔احادیث میں اس کی ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ مخصوص تھی۔اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الادب میں بیان ہوں گے۔بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا اور انہون نے ابوہریرہ ؓ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھاکرو ۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ نے کہا : بعضوں کے نزدیک یہ مطلقاً منع ہے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ ممانعت آپ کی زندگی تک تھی۔ بعض نے کہا جمع کرنا منع ہے یعنی محمد ابوالقاسم نام رکھنا۔ قول ثانی کو ترجیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Abu-l-Qasim said, "Name yourselves after me, but do not call yourselves by my Kuniya."