Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The description of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3548.
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نہ دراز قد تھے نہ پست قامت جبکہ آپ کا قد درمیانہ تھا۔ آپ کا رنگ نہ تو چونے کی طرح خالص سفید اور نہ گندمی کہ سانولانظر آئے بلکہ گورا چمکدار تھا۔ آپ کے بال نہ زیادہ پیچ دار(گھنگریالے) اور نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے بلکہ ہلکا ساخم لیے ہوئے تھے۔ آپ پر وحی کا آغاز چالیس برس کی عمرمیں ہوا۔ پھر اس کے بعد آپ دس سال مکہ مکرمہ میں رہے اور دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا: وفات کے وقت آپ کے سرداڑھی مبارک میں بمشکل بیس بال سفید تھے۔
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شروع ہونے کے بعد تقریباً تین سال ایسے گزرے ہیں جن میں آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ اسے ’’زمانہ فترت‘‘ کہا جاتا ہے راوی نے قیام مکہ سے ان سالوں کو حذف کردیا جن میں آپ پر وحی کے شروع ہونے کے بعد وحی نہیں آئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد مکہ ٹھہرنے کی کل مدت تیرہ برس ہے کیونکہ وفات کے وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی جبکہ دس سال آپ کا مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔زمانہ وحی تیس برس ہے۔ ان احادیث میں پُر جمال قدو قامت پرکشش رنگ اور آپ کے خوبصورت بالوں کا بیان ہے۔ 2۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین خوبصورت سڈول ساخت نہ زیادہ لمبے اور نہ بالکل چھوٹے تھے۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3549) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بہت لمبا نہیں تھا البتہ جب کسی مجمع میں ہوتے تو دوسروں سے قدنکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔(الطبقات الکبری لابن سعد:415/1)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ کا جسم مبارک ترو تازہ قد مبارک نہ زیادہ لمبا اور نہ بالکل پست۔ جب لوگوں سے الگ اکیلے چل رہے ہوتے تو درمیانہ قد معلوم ہوتے تھے۔(دلائل النبوة للأصفهاني:563)حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک لمبے تڑنگے آدمی سے چھوٹا اور متوسط قامت والے سے کچھ نکلا ہوا تھا۔(شمائل الترمذي، ص:20)3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت پرکشش سفید سرخی مائل تھی کیونکہ یہ رنگ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید چمک دار تھا کثرت سفراور دھوپ کی وجہ سے کبھی کبھی گوری رنگت میں ہلکی سی گندمی رنگت کی جھلک معلوم ہوتی تھی۔(دلائل النوة:202/1)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے زیبا(چہرہ مبارک) سفید ہلکی سی سرخی لیے ہوئے تھا۔ (مسند أحمد:96/1)ان مختلف روایات میں امام بیہقی ؒنے اس طرح تطبیق دی ہے جسم مبارک کا وہ حصہ جو دھوپ اور ہوا میں کھلا رہتا وہ سرخی مائل اور جو حصہ کپڑوں میں چھپا رہتا وہ سفید چمکدار تھا۔(فتح الباري:696/6)4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے متعلق حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ وہ کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے یعنی قدرے خمیدہ (گھنگھریالے تھے۔)(دلائل النبوة:202/1) 5۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی خوبصورت منظر کشی بڑے دلکش انداز میں کی ہے فرماتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک خوبصورت اور قدرے خمدار تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ زیادہ پیچدارجب ان میں کنگھی کرتے تو ہلکی ہلکی لہروں کی صورت اختیار کر لیتے جیسا کہ ریت کے ٹیلے یا پانی کے تالاب میں ہوا چلنے سے وہ ابھرآتی ہیں اور جب کچھ وقت کنگھی نہ کرتے تو آپس میں مل کر انگوٹھی کی طرح حلقوں کا روپ دھار لیتے۔(دلائل النبوة:298/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3415
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3548
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3548
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3548
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً28 احادیث بیان کی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل کتاب المناقب کا تیسرا حصہ ہے جس میں صورت و سیرت کو ایک بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کے متعلق ایک مستند کتاب(الرسول كأنك تراه) ہے جسے سر زمین حجاز کے عالم دین الشیخ ابراییم بن عبد اللہ الحازمی نے مرتب کیا ہے راقم نے "آئینہ جمال نبوت"کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ کیا اور دارالاسلام لاہور نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے واللہ الحمد۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نہ دراز قد تھے نہ پست قامت جبکہ آپ کا قد درمیانہ تھا۔ آپ کا رنگ نہ تو چونے کی طرح خالص سفید اور نہ گندمی کہ سانولانظر آئے بلکہ گورا چمکدار تھا۔ آپ کے بال نہ زیادہ پیچ دار(گھنگریالے) اور نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے بلکہ ہلکا ساخم لیے ہوئے تھے۔ آپ پر وحی کا آغاز چالیس برس کی عمرمیں ہوا۔ پھر اس کے بعد آپ دس سال مکہ مکرمہ میں رہے اور دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا: وفات کے وقت آپ کے سرداڑھی مبارک میں بمشکل بیس بال سفید تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شروع ہونے کے بعد تقریباً تین سال ایسے گزرے ہیں جن میں آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ اسے ’’زمانہ فترت‘‘ کہا جاتا ہے راوی نے قیام مکہ سے ان سالوں کو حذف کردیا جن میں آپ پر وحی کے شروع ہونے کے بعد وحی نہیں آئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد مکہ ٹھہرنے کی کل مدت تیرہ برس ہے کیونکہ وفات کے وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی جبکہ دس سال آپ کا مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔زمانہ وحی تیس برس ہے۔ ان احادیث میں پُر جمال قدو قامت پرکشش رنگ اور آپ کے خوبصورت بالوں کا بیان ہے۔ 2۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین خوبصورت سڈول ساخت نہ زیادہ لمبے اور نہ بالکل چھوٹے تھے۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3549) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بہت لمبا نہیں تھا البتہ جب کسی مجمع میں ہوتے تو دوسروں سے قدنکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔(الطبقات الکبری لابن سعد:415/1)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ کا جسم مبارک ترو تازہ قد مبارک نہ زیادہ لمبا اور نہ بالکل پست۔ جب لوگوں سے الگ اکیلے چل رہے ہوتے تو درمیانہ قد معلوم ہوتے تھے۔(دلائل النبوة للأصفهاني:563)حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک لمبے تڑنگے آدمی سے چھوٹا اور متوسط قامت والے سے کچھ نکلا ہوا تھا۔(شمائل الترمذي، ص:20)3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت پرکشش سفید سرخی مائل تھی کیونکہ یہ رنگ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید چمک دار تھا کثرت سفراور دھوپ کی وجہ سے کبھی کبھی گوری رنگت میں ہلکی سی گندمی رنگت کی جھلک معلوم ہوتی تھی۔(دلائل النوة:202/1)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے زیبا(چہرہ مبارک) سفید ہلکی سی سرخی لیے ہوئے تھا۔ (مسند أحمد:96/1)ان مختلف روایات میں امام بیہقی ؒنے اس طرح تطبیق دی ہے جسم مبارک کا وہ حصہ جو دھوپ اور ہوا میں کھلا رہتا وہ سرخی مائل اور جو حصہ کپڑوں میں چھپا رہتا وہ سفید چمکدار تھا۔(فتح الباري:696/6)4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے متعلق حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ وہ کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے یعنی قدرے خمیدہ (گھنگھریالے تھے۔)(دلائل النبوة:202/1) 5۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی خوبصورت منظر کشی بڑے دلکش انداز میں کی ہے فرماتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک خوبصورت اور قدرے خمدار تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ زیادہ پیچدارجب ان میں کنگھی کرتے تو ہلکی ہلکی لہروں کی صورت اختیار کر لیتے جیسا کہ ریت کے ٹیلے یا پانی کے تالاب میں ہوا چلنے سے وہ ابھرآتی ہیں اور جب کچھ وقت کنگھی نہ کرتے تو آپس میں مل کر انگوٹھی کی طرح حلقوں کا روپ دھار لیتے۔(دلائل النبوة:298/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبردی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے اور انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نہ بہت لمبے تھے اورنہ چھوٹے قد کے، نہ بالکل سفید تھے اور نہ گندمی رنگ کے۔ نہ آپ کے بال بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی اور آپ نے مکہ میں دس سال تک قیام کیا اور مدینہ میں دس سال تک قیام کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی تو آپ کے سر اور داڑھی کے بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was neither very tall nor short, neither absolutely white nor deep brown. His hair was neither curly nor lank. Allah sent him (as an Apostle) (ﷺ) when he was forty years old. Afterwards he resided in Makkah for ten years and in Madinah for ten more years. When Allah took him unto Him, there was scarcely twenty white hairs in his head and beard.