Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The description of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3568.
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ تمھیں ابوفلاں کے حال پر تعجب نہیں ہوتا، وہ آئے اور میرے حجرے کے قریب بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کرنے لگے اور مجھے سنانا چاہتے تھے۔ جب کہ میں نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ میری نماز پوری ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی ضرور خبرلیتی اور بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔
تشریح:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس شخصیت کو ہدف تنقید بنایا وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،چنانچہ اسماعیلی کی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:تجھے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انداز گفتگو پر تعجب نہیں ہوتا۔(فتح الباري:707/6)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث کے متعلق زور بیانی پر اعتراض کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحافظہ بہت قوی تھا،اس لیے احادیث جلدی جلدی بیان کردیتے تھے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت آہستہ آہستہ ہوا کرتی تھی کہ سننے والاآپ کے الفاظ گن لیتاتھا لیکن مجمع عام اور خطبہ دیتے وقت یہ قید نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرماتے تو آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حدیث پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3435.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3568
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3568
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3568
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً28 احادیث بیان کی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل کتاب المناقب کا تیسرا حصہ ہے جس میں صورت و سیرت کو ایک بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کے متعلق ایک مستند کتاب(الرسول كأنك تراه) ہے جسے سر زمین حجاز کے عالم دین الشیخ ابراییم بن عبد اللہ الحازمی نے مرتب کیا ہے راقم نے "آئینہ جمال نبوت"کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ کیا اور دارالاسلام لاہور نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے واللہ الحمد۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ تمھیں ابوفلاں کے حال پر تعجب نہیں ہوتا، وہ آئے اور میرے حجرے کے قریب بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کرنے لگے اور مجھے سنانا چاہتے تھے۔ جب کہ میں نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ میری نماز پوری ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی ضرور خبرلیتی اور بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس شخصیت کو ہدف تنقید بنایا وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،چنانچہ اسماعیلی کی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:تجھے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انداز گفتگو پر تعجب نہیں ہوتا۔(فتح الباري:707/6)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث کے متعلق زور بیانی پر اعتراض کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحافظہ بہت قوی تھا،اس لیے احادیث جلدی جلدی بیان کردیتے تھے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت آہستہ آہستہ ہوا کرتی تھی کہ سننے والاآپ کے الفاظ گن لیتاتھا لیکن مجمع عام اور خطبہ دیتے وقت یہ قید نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرماتے تو آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حدیث پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیرنے خبردی اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ( حضرت ابوہریرہ ؓ ) پر تمہیں تعجب نہیں ہوا ۔ وہ آئے اور میرے حجرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث مجھے سنانے کے لیے بیان کرنے لگے ۔ میں اس وقت نماز پڑھ رہی تھی ۔ پھر وہ میری نماز ختم ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے ۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی خبرلیتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تیز بیانی اور عجلت لسانی پر انکار کیا تھا اور اشارہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو بہت آہستہ آہستہ ہواکرتی تھی کہ سننے والا آپ کے الفاظ کو گن سکتا تھا۔ گویا اسی طرح آہستہ آہستہ کلام کرنا اور قرآن وحدیث سنانا چاہیے۔ لیکن مجمع عام اور خطبہ میں یہ قید نہیں لگائی جاسکتی کیوں کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا بیان کرتے یا عذاب الٰہی سے ڈراتے تو آپ کی آواز بہت بڑھ جاتی اور غصہ زیادہ ہوجاتا وغیرہ۔ یہاں یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت حدیث پر اعتراض کیا، یہ بالکل باطل ہے، اور ''توجیہ القول بما لا یرضی بہ القائل'' میں داخل ہے یعنی کسی کے قول کی ایسی تعبیر کرنا جو خود کہنے والے کے ذہن میں بھی نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa bin Az-Zubair (RA): 'Aisha (RA) said (to me), "Don't you wonder at Abu so-and-so who came and sat by my dwelling and started relating the traditions of Allah's Apostle (ﷺ) intending to let me hear that, while I was performing an optional prayer. He left before I finished my optional prayer. Had I found him still there. I would have said to him, 'Allah's Apostle (ﷺ) never talked so quickly and vaguely as you do.' "